” غزل “

لازم نہیں لبوں پہ ہی لائیں کوئی فغاں
خاموشیوں کی ہوتی ہے اپنی بھی اک زباں

کانٹوں کی سیج ہے یہ کوئی تختِ گل نہیں
ان دیکھے موسموں کی بھی آتی ہیں سختیاں

پتّے جو سبز ہیں انھیں چپ کا حصار ہے
پتّے جو زرد ہوں وہ سناتے ہیں داستاں

سیلاب کی گرفت میں آئے جو تشنہ لب
پانی بہا کے لے گیا انکو کہاں کہاں

کھانے کے درمیاں یہ جگہ چھوڑنی پڑی
آثار میں تو رہ گئیں خالی رکابیاں

ہر اک نوا میں جوش تھا مدہوش تھی فضا
یہ سوچنے کی بات ہے مجمع گیا کہاں

آزاد خود بخود ہوئے منظر بدل گیا
وہ سب طیور اڑ گئے جب چھا گیا دھواں

منظر نقوی

اپنا تبصرہ بھیجیں