ملک معراج خالد

تحریر: ڈاکٹر آغا وقار ھاشمی

پاکستان کی تاریخ میں وڈیرے اور رئیس وزیراعظم تو بہت بنے لیکن اگر کبھی کوئی مزاعراہ یا مزاعرے کا بیٹا وزیراعظم بنا تو وہ ملک معراج خالد تھا،
آج ملک صاحب کا تذکرہ ایک ٹی وی پروگرام میں سنا تو ان سے جڑی مختصر سی یادیں ذیہن میں تازہ ہونے لگیں،
اُن سے میری پہلی باضابطہ ملاقات تب ہوئی جب میری عمر غالباً بارہ سال تھی، میرے دادا نےمیرا تعارف کروایا کہ میرا پوتا ہے، سکول میں تقریری مقابلوں میں حصہ لیتا ہے، وہ جھٹ سے بولے سناؤ کچھ، میں نے رسول اللہ (ص) کے موضوع پر ایک رٹی رٹائی تقریر سنانی شروع کی وہ انہماک سے سنتے رہے، تقریر ختم ہوئی، تالی بجاتے ہوئے بولے، شاباش، اب قائداعظم پر کچھ لکھ کر دکھاؤ، صفحہ قلم مہیا کیا گیا، مجھے لکھتا ہوا ٹک ٹکی باندھ کر دیکھتے رہے، تحریر پڑھی، میری خوب حوصلہ افزائی کی، انعام کے طور پر جیب سے دس روپے کے دو نوٹ نکال کر دئے، اور کہنے لگے
” بیٹا لفظ یاد تو بہت سے لوگ کر لیتے ہیں، لیکن لفظوں سے دوستی کرو”
انکا یہ فقرہ اکثر میرے ذیہن میں گونجتا ہے،
ملک صاحب نے ا پنی سیاسی زندگی میں ھمیشہ بائیں بازو کی سیاسی سوچکے حامل رہے، پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے ایک تھے، مارکسزم سے بہت متاثر تھے،
سیاسی زندگی میں مختلف ادوار میں مختلف عہدوں پر فائز ہوئے، سپیکر، وزیراعلیٰ پنجاب، وزیرِ قانون، اور حتیٰ کہ نگران وزیراعظم بھی، لیکن پھر بھی ساری عمر سادہ زندگی گزاری، اپنے حکومتی عہدوں کے بل بوتے پرکوئی مال و جائیداد نہ بنائی، بے داغ سیاسی کرئیر رہا،

Malik Meraj Khalid
خیر انکی سیاسیات پر معلومات تو عام انٹرنیٹ پر مل جائیں گی، میں انکے ساتھ اپنے ذاتی تجربات پر لکھنا چاہوں گا،
ملک صاحب نے اپنے پسماندہ اور ناخواندہ علاقے کے لوگوں کی تعلیم کے لئے بہت کام کیا، الاخوان کے نام سے ایک فلاحی ادارہ بنایا جس کا ممبر اُس علاقے کہ مختلف صاحبِ ثروت لوگوں کو بنایا، اسکے علاوہ ملک کے کئی اور امیر لوگ اسکے ممبر بنے، جن میں ایک نام سیٹھ عابد کا بھی تھا،
ان سب افراد کے مالی تعاون سے انہوں نے اپنے علاقے میں ایک کمپلیکس بنوایا،
جس میں لڑکے اور لڑکیوں کا سکول، کالج ،لڑکیوں کا دستکاری سکول، اور کھیلوں کا سٹیڈیم بھی بنوایا گیا،
لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ دیتے، اور ان تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیلوں کو بھی ضروری قرار دیا،
گھر گھر جا کر لوگوں سے گزارش کی گئی کہ اپنے بچے اور بچیوں کو سکول بھیجیں، تعلیم بالکل مفت تھی، بلکہ پوزیشن لینے والے بچوں کے ساتھ ساتھ انکے والدین کو بھی سٹیج پر بلوا کر انعام دیا جاتا، تاکہ والدین کی بھی حوصلہ افزائی ہو اور وہ بچے پڑھاتے رہیں، اپنا دن رات ایک کئے رکھتے اُن دیہاتیوں کے بچوں کی تعلیم کی خاطر،
سکول و کالج کی تقسیمِ انعامات اور حوصلہ افزائی کے لئے ملک صاحب اپنا سیاسی اثرورسوخ بھی استعمال کرتے،مشہور شخصیات کے ہاتھوں بچوں کو انعام دلواتے، صدر فاروق لغاری اور ایک دفعہ تو امریکی صدر بل کلنٹن بھی آئے،اس علاقے کے بہت سے بچے تعلیمی میدان میں آگے نکلے اور آج اچھے عہدوں پر ہیں،
میرے دادا ملک صاحب کی بڑے بھائیوں کی طرح عزت کرتے تھے، اُنہیں ملک صاحب سے بڑی عقیدت تھی، اور ملک صاحب کا رویہ بھی انکے ساتھ انتہائی مشفقانہ تھا، ملک صاحب اتنی بڑی شخصیت اور میرے دادا ایک ریٹائرڈ معمولی پولیس افسر، لیکن پھر بھی تنظیمی کاموں میں ان سے بھی مشاورت کرتے،
میرے والد نے جب ماسٹرز پولیٹکل سائنس کی ڈگری لی تو خود میرے دادا کو فون کر کے بولے کہ محمود (میرے والد) کو. کہو کہ انگریزی میں ایک درخواست لکھ کر میرے پاس لائے میں نوکری کا کچھ کرتا ہوں، میرے علاقے میں یہ پہلا ھمارا بچہ ہے جس نے ایم اے کیا،یہ اچھے مقام پر ہوگا تو دوسروں کے لئے مثال بنے گا،
جس نوکری کے لئے میرے والد کو بلایا اسکے لئے انکا اپنا قریبی عزیز بھی خواہاں تھا، لیکن اس پر میرے والد کو ترجیح دی اور کہا یہ فیصلہ قابلیت کی بنیاد پر کروں گا رشتے داری کی بنیاد پر نہیں،
نہایت سادہ انسان تھے، ڈھابوں پہ بیٹھ کر بھی کھانا کھا لیا کرتے، ایک دفعہ میں اپنے دادا کے ہمراہ کہیں جا رہا تھا کہ ھمیں دیکھ کر پاس لا کر گاڑی روکی اور بیٹھنے کو کہا، اور گاڑی ایک ڈھابے پر لے گئے ، اور میرے دادا کو کہنے لگے “آج جلیبیاں تو کھوائیں گا”
وزیراعظم بنے تو ایک دفعہ دادا کو کال کی اور کوئی کام ذمے لگایا اور انکے گھر جانے کو بولا کہ میری بیگم سے کام کی مزید تفصیلات پوچھ لینا، دادا نے رکشہ کروایا اور انکے گھر پہنچے تو پتا چلا پاکستان کی خاتونِ اول وزیراعظم صاحب کی بیگم صاحبہ بازار پیدل ہی سبزی لینے گئی ہیں،
وزیراعظم تھے لیکن اپنا بیٹا دودھ کا معمولی کاروبار کرتا تھا، اور اکثر تو دودھ خود دودھ والی گاڑی پر رکھ کر دوکانوں پر پہنچانے جاتا،
وزیراعظم بننے سے پہلے اور بعد بھی وہی پرانی گاڑی استعمال میں رہی جسکو تین چار سلف تو مارنے پڑتے ہی تھے، اور انجن خوب پھٹ پھٹ کی آواز دیتا تھا،
دل تو بہت کر رہا ہے کہ مضمون کے آخر میں مسلم لیگ ن کے راہنماؤں کے اثاثوں کا ذکر کروں، پانامہ لیکس کا قصہ چھیڑوں یا پیپلزپارٹی ذداری دور کے کرپشن کے کارناموں کا تذکرہ کروں، یا کے پی کے کی اس پارلیمنٹ کا ذکر کروں جو پاکستان کی سب سے امیر پارلیمنٹ ہے جہاں فی پارلیمینٹیرین کے ڈکلئیرڈ اساسوں کی مالیت اوسطً ساڑھے سترہ کروڑ ہے،
دفع کرو ہمارا کیا لینا دینا، ایسے ہی ان کا تذکرہ کر کہ اپنا سادہ سا مضمون کیوں خراب کروں،
نالے غریب بندے دا سیاست نال کی کم…..

5 تبصرے “ملک معراج خالد

  1. Wow, awesome weblog format! How long have you been blogging for? you make blogging look easy. The full glance of your web site is great, as neatly as the content material! You can see similar here e-commerce

  2. Wow, incredible blog format! How lengthy have you been running a blog for? you make running a blog glance easy. The total look of your web site is wonderful, let alone the content material! You can see similar here sklep online

  3. Wow, amazing blog layout! How long have you been blogging for? you make blogging glance easy. The overall look of your web site is excellent, as neatly as the content! You can see similar here dobry sklep

  4. Hi there, just became aware of your blog through Google, and found that it is really informative. I’m going to watch out for brussels. I will appreciate if you continue this in future. A lot of people will be benefited from your writing. Cheers! Escape room

اپنا تبصرہ بھیجیں