دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کا جنون

انسانوں پر حکمرانی کرنے کا جنون اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان خود ہے۔ غور کریں وہ کیسا انسان ہوگا جس نے پہلی دفعہ اپنے جیسے انسانوں کو کہا ہوگا وہ ان سے زیادہ سمجھدار، ہوشیار، ذہین اور تگڑا انسان ہے۔ وہ سارے مل کر بھی خود اپنا خیال نہیں رکھ سکیں گے اور مارے جائیں گے یا لٹ جائیں گے۔ وہ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔
پھر ان سب کے ڈرے سہمے چہروں کو دیکھ کر اس چالاک انسان نے کہا ہوگا لیکن آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔ میں ہوں ناں۔ میں انہیں لٹنے دوں گا نہ ہی بھوکا مرنے دوں گا اور نہ ہی ان کی عزت پر کوئی داغ آنے دوں گا۔ بس آپ لوگوں کو مجھے قبلیے کا سردار بنانا ہوگا۔ اپنا حاکم ماننا ہوگا۔ میں تمہیں دنیا میں عزت دلوائوں گا۔میں تمہارا رہبر بنوں گا۔ میں ہی تمہارے کشتی پار لگائوں گا۔
اور پھر وہی انسان پہلے قبیلے کا سردار بنا اور آج اس انسان کو جمہوری زبان میں وزیراعظم کہا جاتا ہے۔ ویسے کبھی ان عام انسانوں نے نہ سوچا جنہوں نے اپنے جیسے ایک بندے کو حق دیا کہ وہ ان کا سردار بنے،ان کی زندگیوں کے فیصلے کرے وہ آخر ان سب کا بھلا کیوں چاہتا ہے؟ وہ اپنا کاروبار، بچے اور فیملی چھوڑ کر ان کے بچوں کا اتنا سگا کیسے ہوگیا؟ اسے ان کے بچوں سے اتنی ہمدردی کیوں ہوگئی ہے؟ وہ کیوں ان کے بچوں کے مستقبل کا نام لے کر انہیں ڈراتا رہتا ہے؟
حکمران بننے کے خواہشمند انسانوں کی یہی کامیابی ہے کہ وہ اپنے جیسے عام لوگوں کو چونا لگانے کا فن جانتے ہیں۔
وہ لوگوں کو اپنی چرب زبانی اور ہوشیاری سے گھیر لیتے ہیں۔ ان کے خوابوں کو بیچتے ہیں اور معاوضے کے طور پر وہ ان سے قبیلے کی سرداری مانگتے ہیں۔
یہ سب باتیں مجھے اس لیے یاد آرہی ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان آج کل ایک ہی بات دہرا رہے ہیں کہ وہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملنا چاہتے ہیں۔ لیکن جنرل صاحب ملنے کو تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کو دن رات فکر کھائے جارہی ہے پاکستان نیچے جارہا ہے اور اگر انہیں دوبارہ وزیراعظم نہ بنایا گیا تو خدانخواستہ پاکستان کا حشر ہو جائے گا۔ یہ قوم عظیم بن سکتی ہے اگر عمران خان وزیراعظم ہو لیکن خان اس وقت تک وزیراعظم نہیں بن سکتا جب تک وہ جنرل عاصم منیر سے مل کر انہیں قائل نہیں کر لیتا کہ ان کا وزیراعظم بننا ملک و قوم کے لیے کتنا اہم ہے۔
عمران خان سے پہلےکسی سابق وزیراعظم نے کسی آرمی چیف سےاپیلیں نہیں کی تھیں کہ وہ ان سے مل لیں اور آرمی چیف نے انکار کر دیا ہو۔
عمران خان پہلےسابق وزیراعظم نہیں جو یہ سمجھتے ہیں وہ پہلی دفعہ وزیراعظم ہاوس میں نئے تھے لہذا حکومت نہ چلا سکے۔ غلطیاں ہوئیں اب وہ سمجھدار ہوگئے ہیں۔ اب کی دفعہ دیکھنا وہ کیا کیا کرتب کرتے ہیں۔
زیادہ دور نہیں جاتے۔ یہی جنون پاکستان کے ایک اور پاپولر لیڈر وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر بھی سوار ہوا تھا۔ اگرچہ انہوں نے چار سال کے قلیل عرصے میں وزیراعظم کے طور پر مشکل حالات میں بڑے کام کیے اور ملک کو نئی سمت دکھائی جو اکہتر کی جنگ اور بنگلہ دیش کے قیام بعد بری حالت میں تھا۔
لیکن بھٹو صاحب پر بھی وقت سے پہلے دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کا جنون سوار ہوا۔ انہوں نے بھی جلدی میں مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اسمبلیاں توڑ کر الیکشن کرا دیے تاکہ وہ دوسری دفعہ وزیراعظم بن کر ملک و قوم کی خدمت جاری رکھیں۔ ان کی جلدی انہیں لے ڈوبی۔ الیکشن میں ان پر دھاندلی کے الزامات لگے۔ اپوزیشن کو موقع مل گیا۔ تحریک شروع ہوئی اور اسی بھٹو کو دوسری دفعہ وزیراعظم کا حلف لینے سے پہلے ہی ان کے اپنے جنرل ضیاء الحق نے گرفتار کر کے پھانسی گھاٹ پہنچا کر وہاں سے میت گڑھی خدابخش بھجوا دی۔
بینظیر بھٹو بھی 1993 میں دوسری دفعہ وزیراعظم بنیں۔ اس دور میں ہی سوئس منی لانڈرنگ کیس بنا۔ ریڈ ورانٹ نکلے۔ اس شوق میں عدالتوں کے ہاتھوں سزا بھگتی۔ تیسری دفعہ 2007 میں وزیراعظم بننے کے لیے امریکن اور برطانیہ کی مدد سے جنرل مشرف سے سب تک ڈیل کر لی تھی لیکن حلف لینے سے پہلے ہی قتل ہو گئیں۔
بھٹو کے بعد ایک اور پاپولر لیڈر نواز شریف کو یہ شوق ہوا کہ جس لیول کی ملک و قوم کی خدمت وہ کرسکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔ وہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانا چاہتے تھے۔ انہیں بھی لگا جب 1990/91!میں وہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے تو ناتجربہ کار تھے۔ انہیں صدر اسحاق خان نے حکومت نہیں کرنے دی۔ (جیسے خان صاحب کے بقول انہیں جنرل باجوہ نے نہیں کرنے دی)۔ انہیں بچہ سمجھ کر اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ اور جنرل آصف نواز نے نہیں چلنے دیا۔ اب اگر وہ دوبارہ وزیراعظم بن گئے تو پاکستان کو سپر پاور بنا دیں گے۔ انہوں نے بھی اس وقت کی آرمی اسٹیبلشمنٹ سے ایسی ٹکر لے لی تھی جیسے آج کل عمران خان لیے ہوئے ہیں۔
لوگوں کو ان کا بیانہ پسند آیا اور انہیں 1997 کے الیکشن میں دوبارہ وزیراعظم بننے کا موقع مل گیا۔ نواز شریف نے بھی یہ سمجھا اللہ نے انہیں بہت بڑے کام کے لیے دوبارہ چنا تھا۔ وہ بڑا کام پاکستان میں پہلی دفعہ سرونگ آرمی چیف کی برطرفی تھا۔ بارہ اکتوبر کو فوج نے جنرل مشرف کی برطرفی بعد بغاوت کی۔ دوسری دفعہ کا وزیراعظم اپنے بھاری مینڈیٹ سمیت جرنیلوں ہاتھوں گرفتار ہو کر پہلے لانڈھی جیل کراچی تو پھر اٹک جیل جا اٹکا اور ایک سال بعد دہشت گردی عدالت سے نااہل اور دس پندرہ سال سزا کا طوق اٹھائے سیاست سے دس سال کے لیے توبہ تائب ہو کر جدہ لندن جلاوطنی میں جا بیٹھا۔
اس ایک سال میں نواز شریف ساتھ ایسا کرتب ہوا کہ بندے کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آیا۔
کیاکریں یہ انسانوں پر حکمرانی کرنے کا نشہ ہی ایسا ہے کہ اس میں جان دینی بھی پڑتی ہے اور جان لینی بھی پڑتی ہے۔
نواز شریف نے سبق پھر بھی نہ سیکھا اور 2013 میں تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کے لیے تل گئے۔ جنریلوں سے خفیہ ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ آخرکار کشٹ کاٹنے بعد وہ تیسری دفعہ وزیراعظم بنے۔ تین سال بعد ایک دفعہ پھر سیدھے وزیراعظم ہاوس سے بیٹی اور داماد ساتھ جیل جا بیٹھے۔
سنا ہے وہ چوتھی دفعہ پھر وزیراعظم بننے کے لیے تیاری پکڑ رہے ہیں کہ بہت جلد سپریم کورٹ سے نااہلی ختم کرانے کے لیے پیٹیشن داخل ہوگی۔
اب عمران خان بھی بھٹو، بینظیر اور نواز شریف کی طرح ایک دفعہ وزیراعظم بن کر راضی نہیں ہیں۔ وہ اپنا سفر وہیں سے سفر شروع کرنا چاہتے ہیں جہاں نواز شریف 1997 میں کھڑے تھے اور دو تہائی اکثریت لے کر پاکستان کے سیاسی وزیراعظم کی بجائے امیرالمومنین بننا چاہتے تھے۔
ہم لوگ اکثر ایک فقرہ دہراتے ہیں انسان تاریخ سے نہیں سیکھتا لہذا تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ اس کی وجہ ہے ہزاروں سال سے انسانی نفسیات اور جبلتیں ایک جیسی ہیں۔ ہزاروں سال پہلے کا انسان بھی انہی جبلتوں کا غلام تھا جس کے آج ہم ہیں۔ وہ جبلتیں چاہے محبت کی ہو یا نفرت یا اقتدار کی ہوس وہ ہزاروں سال پہلے بھی موجود تھیں آج بھی ہیں لہذا انسان ہر دور میں وہی کام کرے گا جوہزاروں سال پہلے کرتا تھا۔ اسے تاریخ کا دہرانا کہہ لیں یا جبلتوں کے اثرات۔ لہذا ہزاروں سال بعد بھی تاریخ خود کو دہراتی رہے گی کیونکہ زمانے بے شک بدل جائیں لیکن انسانی جبلتیں کبھی نہیں بدلتیں۔
اسی جبلت کے زیراثر بھٹو نے دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کے لیے جو خطرات مول لیے اور پھانسی جا لگے، وہی رسک نواز شریف نے مول لیے اور دہشت گردی کی سزا سن کر دس سال کے لیے جدہ جا بیٹھے۔ بینظیر بھٹو تیسری دفعہ وزیراعظم بننے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اب مجھے حیرانی نہیں کہ عمران خان بھی وہ سب خطرات گلے لگانے کو تیار ہیں جو بھٹو، بینظیراور شریف کو پھندے تک لے گئے۔
محمد خان جونیجو سمجدار تھا جسے دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کا شوق نہ چرایا اور عزت کما گیا۔
بس اب کوئی جلدی سے عمران خان کو دوسری دفعہ وزیراعظم بنا دے۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور نواز شریف سے بھی زیادہ جلدی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں