لوک دانش

عہید سے ایک دن پہلے جب ڈرائیور عید منانے چھٹی پر جاچکاتھا،عطاالحق قاسمی صاحب کے دفتر میں صوفی بزرگ،منفرد مصنف اور سماج سیوک بابا محمد یحییٰ خان کے ساتھ بیٹھک کا سندیسن میں جگمگایا۔ ایسی روحانی اور شگفتہ محفل میں نہ جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا کہ میزبان اور مہمانِ اعزاز دونوں نابغہ روزگار شخصیات ہیں۔نجی ٹیکسی پر سفر کا آغاز ہوا جو میرے گھر سے تقریبا چالیس پینتالیس منٹ کا تھا لیکن ڈرائیور کا کہنا تھا کہ آج شہر میں رش بالکل نہیں ہوگا اس لئے آدھے گھنٹے میں پہنچا دوں گا۔ اس کے شارٹ کٹ راستے پر واقعتاً انسانوں کا رش کم تھا اور بکروں کا زیادہ۔صاحب ثروت خریدار بڑی بڑی گاڑیاں سڑک کے کنارے کھڑی کر کے بھاؤ تاؤ اور بکروں کی صحت و سیرت کا اندازہ لگانے میں مصروف تھے۔ سفر کرنیوالے کئی کلومیٹر تک رک رک اور رینگ رینگ کر آگے بڑھ رہے تھے۔
وہیں سے بات چیت کا آغاز ہوا کہنے لگا دیکھیں اس ملک کو قائم ہوئے 75 سال ہو گئے ہیں آج تک کسی کام میں ڈسپلن قائم نہیں ہو سکا۔اتنی جگہیں خالی پڑی ہیں بھلا وہاں عارضی منڈیاں بنا دیں۔سڑک پر قبضہ کر کے بیٹھے ہیں وقت اور پٹرول کے دشمن۔ میں نے کہا لوگ مہنگائی کا رونا بھی روتے ہیں اور مہنگے جانورخریدنے والوں کا رش دیکھ کر حیرا نی بھی ہوتی ہے۔کہنےلگا،مہنگائی صرف تنخواہ دار طبقےکیلئے ہے۔جنہوں نے ہر چیز پر 20 فیصد منافع لینا ہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اس لیے وہ اس بار ڈبل قربانی دے رہے ہیں۔
اچھا یہ بتاؤ تمہارا اس گاڑی کی آمدن سے گزارا ہو جاتا ہے۔ کہنے لگا پہلے بہت اچھا وقت گزر جاتا تھا مگر اب دو وقت کی روٹی چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ حالانکہ خاندان بھی بہت چھوٹا ہےمیری دو بیٹیاں ہیں دونوں یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں۔پچھلے دنوںتوسوچاانکی تعلیم ختم کراکےواپس گاؤںچلا جاؤں۔فیسیں پوری کروں یا کچن چلاؤں، اچھا گاؤں سے آئے ہو۔جی بیٹیوں کو پڑھانے کیلئے جو جمع پونجی تھی بیچ کر یہ گاڑی لے کر آگئے تھے۔ میرے رشتے دار میرے شہر آنے اور بیٹیوں کو پڑھانے پر پہلے ہی بہت ناراض ہیں مجھ سے اور میری بیوی سے۔ اب اس مہینے سے بڑی بیٹی نے پارٹ ٹائم جاب شروع کر دی ہے۔کہتی ہے ابا میرے صرف دو سمسٹر رہ گئے ہیں پھر مسئلے حل ہو جائیں گے۔میں نے حوصلہ دیا اور شاباش بھی کہ مشکل حالات میں بھی بیٹیوں کو پڑھا رہے ہو بہت اچھا کام ہے۔اِن شااللہ کچھ عرصے بعد مہنگائی کم ہو جائے گی اور ہمارا ملک معاشی طور پر مستحکم ہو جائے گا۔کہنے لگا امید تو نہیں لیکن دیکھیں کیا بنتا ہے۔میں نے پوچھا مایوسی کی وجہ۔کہنے لگا، خان صاحب اور شہباز صاحب۔مطلب، دونوںنے بہت مایوس کیا ہے جی۔خان صاحب سے غریب لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں کیونکہ وہ باتیں بہت اچھی کرتے تھے مگر اب پتہ چلا بس باتیں ہی کرتے تھے حکومت چلانا ان کے بس میں نہیں تھا۔ نہ خود کام کیا نہ اوروں کو کرنے دیا۔ کیسے؟ دیکھیں ناں جی ان کی بڑی حکومت گئی تو صوبوں کی چلتی اسمبلیاں توڑ دیں بھلا کوئی سیاست دان ایسے کرتا ہے۔خان صاحب کو کرکٹ اکیڈمی شیڈمی بنانی چاہیے تھی سیاست میں نہیں آنا چاہیے تھا۔اچھا شہباز صاحب سے کیا گلہ ہے، وہ جی وہ وزیراعلیٰ بہت اچھے تھے بڑے کام کئے انھوں نے۔مگر وزیر اعظم بن کر تو وہ گم سم ہی ہو گئے ہیں۔شاید پندرہ سولہ پارٹیوں نے انھیں دبایا ہوا ہے مگرمسئلے تو ہمارے عوام کیلئے ہیں۔ ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک رہی ہے یہ تو ہر وقت جہازوںمیں ہی اڑتےرہتے ہیں۔
یہ سیاست دان ملک کے سگے بنتے ہیں لیکن ملک کی خاطر اکٹھے بیٹھنے کو تیار نہیں۔اس وقت انھیںمتحد ہو کر ملک کو سنبھالنا چاہیے مگر یہ تو ہر وقت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میںکوشاں رہتے ہیں ،ان کو کوئی فکر ہی نہیں جب جہاز ڈوبنے کا خطرہ ہو تو سامان کم کیا جاتا ہے یہ اور لاد رہے ہیں۔ملک کیلئے ایک کمرے میں نہیں بیٹھ سکتے لیکن اپنے مفاد کیلئے اکٹھے ہو جاتے ہیںیا خاموش رہتے ہیں۔میں نےکہا ویسے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے، کہنے لگا ہم غریب لوگ بھی تواکٹھے نہیں ہوتے۔ نہ حقوق کی بات کرتے ہیں نہ احتساب کی۔ اس کی وجہ کیا ہے، اصل میں ہم سب بھی چھوٹے چھوٹے چور ہی ہیں اسلئے اندر سے ہم سب بھی بہت خوفزدہ ہیں۔ہمارے بھی سمجھوتے چل رہے ہیں۔اچھا یہ بتاؤ آئندہ کس پارٹی کی حکومت بنے گی۔ اس ڈرائیور نے جو جواب دیا وہ بڑا عجیب تھا اس لئے تحریر نہیں کیا جاسکتا….لیکن سوچتی ہوں اس کی بہت سی باتیں درست تھیں ہو سکتا ہے یہ بھی سچ ہو جائے……لکھنے والوں سے گزارش ہے کبھی کبھی اپنے حلقے سے نکل کر دھرتی کے اصل وارثوں سے مکالمہ کریں اور دیکھیں وہ کیا سوچ رہے ہیں اور ہم ان کی سوچ کے کس رخ پرکھڑے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں