زندگی ایک اسرار آمیز نعمت ہے

سورۃ البقرۃ 28/29

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللہِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ۞ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ۞
بھلا تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو۔ حالانکہ تم مردہ (بے جان) تھے تو اسی نے تمہیں زندہ کیا (جاندار بنایا) پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تمہیں زندگی دے گا۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ ۔ وہی تو وہ (اللہ) ہے جس نے تمہارے لئے پیدا کیا وہ سب کچھ جو زمین میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی تو سات آسمان ہموار و استوار کر دیئے۔ اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ۔
📚 تفسیر آیات📚
مندر جہ بالا دو آیات میں قرآن نے نعمات الہٰی کے ایک سلسلے اور تعجب انگیز خلقت کا ذکر کے انسان کو پروردگار اور اس کی عظمت کی طرف متوجہ کر دیا ہے اور خدا شناسی کے سلسلے میں جو دلائل گذشتہ آیات (۲۱، ۲۲)میں بیان کئے گئے ہیں ان کی تکمیل کر رہا ہے ۔قرآن یہاں وجود خدا کے اثبات کو ایسے نکتے سے شروع کر رہا ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور وہ ہے زندگی کا پر اسرار مسئلہ ۔ پہلے کہتا ہے تم خدا کا کس طرح انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے روح جسم تھے اس نے تمہیں زندہ کیا اور تمہارے بدن پر زندگی کا لباس پہنایا (کیف تکفرون بااللہ وکنتم امواتاً فاحیاکم)۔قرآن ہم سب کو یاد دہانی کرواتا ہے کہ اس سے پہلے تم پتھروں،لکڑیوں اور بے جان موجودات کی طرح مردہ تھے اور نسیم زندگی کا تمہارے کوچے سے گذر نہ تھا لیکن اب تم نعمت حیات و ہستی کے مالک ہو ۔تمہیں اعضاء، حواس اور ادراک کے کارخا نہ عطا کئے گئے ہیں۔ یہ وجود حیات تمہیں کس نے عطا کیا ہے کیا یہ سب کچھ خود تم نے اپنے آپ کو دیا ہے ۔واضح ہے کہ ہر منصف مزاج انسان بغیر کسی تردد کے اعتراف کرتا ہے کہ یہ نعمت خود اس کی اپنی طرف سے نہیں ہے بلکہ ایک مبداء عالم و قادر کی طرف سے اسے ملی ہے جو زندگی کے تمام رموز اور پیچیدہ قوانین سے واقف تھا ، انہیں منظم کرنے کی قدرت رکھتا تھا یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیوں حیات و ہستی بخشنے والے خدا کا انکار کرتے ہیں۔ آج کے زمانے میں تمام علماء و محققین پر یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے پاس اس دنیا میں حیات و ہستی سے زیادہ پیچیدہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ تمام تر عجیب و غریب ترقی کے باوجود جو طبیعی علوم و فنون کے سلسلے میں انسان کو نصیب ہوئی ہے ابھی تک حیات کا معمہ حل نہیں ہو سکا۔یہ مسئلہ اس قدر اسرار آمیز ہے کہ لاکھوں علماء کے افکار اور کوششیں اب تک اس مسئلے کے ادراک سے عاجز ہو چکی ہیں ۔ہو سکتا ہے کہ انتھک کوششوں کے سائے میں آئندہ تدریجاً انسان رموز حیات سے آگاہ ہوسکے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اس معاملے کو جو بہت گہرے غور و فکر کا نتیجہ ہے ،اسرار انگیز ہے اور بہت زیادہ علم و قدرت کا محتاج ہے بے شعور طبیعت کی طرف نسبت دے سکتا ہے ،وہ طبیعت جو خود حیات و زندگی سے عاری ہے ۔
یہ وہ مقام ہے جہاں ہم کہتے ہیں کہ اس جہان طبیعت میں حیات و زندگی کا ظہور وجود خدا کے اثبات کی سب سے بڑی سند ہے اور اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔قرآن اوپر والی آیت میں خصوصیت کے ساتھ اسی مسئلے کا سہارا لیتا ہے ہم سردست اسی مختصر اشارے سے گزر جاتے ہیں ۔قرآن اس نعمت کی یاد دہانی کے بعد ایک واضح دلیل پیش کرتا ہے اور وہ ہے مسئلہ “موت” قرآن کہتا ہے : پھر خدا تمہیں مار دے گا (ثم یحییکم )۔
انسان دیکھتا ہے کہ اس کے اعزاء و اقرباء اور دوست و احباب یکے بعد دیگرے مرتے رہتے ہیں اور ان کا بے جان جسم مٹی کے نیچے دفن ہو جاتا ہے ۔یہ مقام بھی غور و فکر کا ہے کہ آخر کس نے ان سے وجود کو چھین لیا ہے اگر ان کی زندگی اپنی طرف سے تھی تو ہمیشہ رہتی یہ جو لے لی گئی ہے اس کی دلیل ہے کہ کسی دوسرے نے انہیں دی تھی ۔ زندگی پیدا کرنے والا وہی موت پیدا کرنے والا ہے چنانچہ سورہ ملک کی آیت ۲میں ہے :الذین خلق الموت والحیٰوة لیبکوکم احسن عملاً۔خدا وہ ہے جس نے موت وحیات کو پیدا کیاتاکہ تمہیں حُسنِ عمل کے میدان میں آزمائے ۔قرآن نے وجود خدا پر ان دو واضح دلیلوں کو پیش کیا ہے۔ دوسرے مسائل کے لئے روح انسانی کو آمادہ کیا ہے اور اس بحث سے مسئلہ معاد اور موت کے بعد زندگی کو بیان کیا ہے ۔پھر کہتا ہے : اس کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا (ثم یحییکم )۔البتہ موت کے بعد یہ زندگی کسی طرح تعجب خیز نہیں کیونکہ پہلے بھی انسان اسی طرح تھا پہلی دلیل (یعنی بے جان کو زندگی عطا کرنا) کی طرف متوجہ ہونے کے بعد دوسری مرتبہ اجزاء بدن کے منتشر ہونے کے بعد زندگی ملنے کے مسئلے کو قبول کرنا مشکل نہیں بلکہ پہلی دفعہ کی نسبت آسان ہے اگرچہ جس ذات کی قدرت لا متناہی ہو اس کے لئے تسہیل و مشکل کوئی مفہوم نہیں رکھتا)۔تعجب کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں انسانوں کی زندگی میں شک اور تردد تھا حالانکہ پہلی زندگی جو بے جان موجودات سے صورت پذیر ہوئی ہے اسے جانتے تھے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن آغاز سے اختتام تک دفتر حیات کو انسان کے سامنے کھولتا ہے اور ایک مختصر سے بیان میں زندگی کی ابتداء وانتہا اور مسئلہ معاد و قیامت کی اس کے سامنے تصویر کشی کرتا ہے ۔اس آیت کے آخر میں کہتا ہے :پھر اس کی طرف تمہاری بازگشت ہو گی (ثم الیہ ترجعون )۔خداکی طرف رجوع کرنے کے معنی وہی خدا کی نعمتوں کی طرف رجوع کرنا ہیں یعنی قیامت اور دوبارہ قبروں سے اٹھنے والے دن کی نعمتوں کی طرف رجوع کرو گے ۔اسکی شاہد سورہ انعام کی آیت ۳۶ ہے جہاں فرماتا ہے ۔والموتی یبعثھم اللہ ثم الیہ یرجعون۔ خدا مُردوں کو قبروں سے اٹھائے گا اور اُسی کی طرف ان کی بازگشت ہو گی ۔ ممکن ہے خداکی طرف رجوع کرنے سے مقصود کوئی ایسی حقیقت ہو جو اس سے زیادہ دقیق و باریک ہو اور وہ یہ کہ تما م مو جودات نے اپنا سفر نقطہٴ عدم جو نقطہٴ صفر ہے سے شروع کیا ہے اور تمام موجودات سیر تکامل میں ہیں اور لامتناہی کی طر ف بڑھ رہے ہیں جو ذات پروردگار ہے لہٰذا مرنے سے سیر تکامل کا سلسلہ معطل نہیں ہوتا اور دوسری مرتبہ قیامت میں زندگی کی زیادہ بلند سطح کی طرف یہ تکامل جاری و ساری رہے گی۔نعمت حیات اور مسئلہ مبداء و معاد کے ذکر کے بعد خدا ایک وسیع نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے :خدا وہ ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا ہے (ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا )۔ اس تربیت سے انسانوں کی وجودی قدروقیمت اور زمین کے تمام موجودات پر ان کی سرداری کو مشخص کیا گیا ہے۔اسی سے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا نے انسان کو بہت بڑے قیمتی اور عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ تمام چیزوں کو تو اس کے لئے پیدا کیا ہے ۔اب اسے کس لئے پیدا کیا ہے۔انسان اس صحنِ عالم میں عالی ترین وجود ہے اور صحن ِعالم میں سب سے زیادہ قدر و قیمت رکھتا ہے۔
صرف یہی آیت نہیں جس مین انسان کے بلند ترین مقام کو بیان کیا گیا ہے بلکہ قرآن میں بہت سی ایسی آیات ملتی ہیں جو انسان کا تعارف تمام تر موجودات کا مقصودِ اصلی کی حیثیت سے کراتی ہیں جیسا کہ سورہ جاثیہ کی آیہ ۱۳ میں آیا ہے :
وسخرلکم ما فی السمٰوات وما فی الارض
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کو تمہارے لئے مسخر قرار دیا ہے۔ دوسری جگہ اس سے زیادہ تفصیل بیان ہوئی ہے : و سخرلکم الفلک و سخر لکم الانھار (۱) وسخر لکم اللیل والنھار (۲)وسخر البحر (۳)و سخر الشمس والقمر (۴) کشتیوں کو تمہارے لئے مسخر کیا گیا اور دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا دن اور رات کو تمہارے لئے مسخر کیا اور سمندروں کو مسخر کیا اور آفتاب و ماہتاب کو بھی تمہارا فرماں بردار اور خدمت گذار قرار دیا ۔(۵)
دوبارہ توحید کے دلائل کی طرف لوٹتے ہوئے کہتا ہے :پھر خداوند عالم آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں سات آسمانون کی صورت میں مرتب کیا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے (ثم استوی الی السماء فسواھن سبع سمٰوٰت و ھو بکل شیء علیم)۔ لفظ” استوی “مادہ “استواء“ سے لیا گیا ہے لغت میں اس کے معنی ہیں احاطہٴ کامل ، تسلط اور خلقت و تدبیر پر مکمل قدرت لفظ ”ثم“ جملہ ” ثم استوی الی السماء “ میں ضروری نہیں کہ تاخیرِ زمانی کے معنی میں ہو بلکہ ہوسکتا ہے اس کے معنی تاخیر بیان اور حقائق کو ایک دوسرے کے بعد لانا ہو ۔
📚(۱)ابراہیم ، آیہ ۳۲
📚(۲)و ۴ ، ابراہیم ، آیہ ۳۳
📚(۳) نحل ، آیہ ۱۴
اس سلسلہ میں زیادہ تر بحث اسی تفسیر میں 📚سورہ رعد آیہ ۲ اور 📚سورہ ابراہیم آیات ۳۲ اور۳۳،میں کی گئی ہے ۔
::::::::::::::::::::::::
التماس دعا
ارشد اسدی الحسینی

اپنا تبصرہ بھیجیں