لیلۃ القدر

۱۔ شب قدر میں کون سے امورمقدّر ہوتے ہیں ؟
( چند نکات)

اِس سوال کے جواب میں کہ اس رات کو، شبِ قدر، کا نام کیوں دیا گیا ہے ، بہت کچھ کہا گیا ہے : منجملہ یہ کہ:
۱۔ شب قدر کو نام شب قدر کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ بندوں کے تمام سال کے سارے مقدرات اسی رات میں تعیین ہوتے ہیں ، اس معنی کی گواہ سورۂ دخان ہے جس میں آیا ہے کہ :”انا انزلناہ فی لیلة مبارکة انا کنا منذرین فیھا یفرق کل امر حکیم”:”ہم نے اس کتابِ مبین کو ایک پُر برکت رات میں نازل کیا ہے ، اور ہم ہمیشہ ہی انداز کرتے رہے ہیں ، اس رات میں ہر امر خداوندِ عالم کی حکمت کے مطابق تنظیم و تعیین ہوتا ہے” (دخان۔ ۳، ۴)۔
یہ بیان متعدد روایات کے ساتھ ہم آہنگ ہے جو کہتی ہیں کہ اس رات میں انسان کے ایک سال کے مقدّرات کی تعیین ہوتی ہے اور رزق ، عمریں اور دوسرے امور اسی مبارک رات میں تقسیم اور بیان کیے جاتے ہیں ۔ البتہ یہ چیز انسان کے ارادہ اور مسئلہ اختیار کے ساتھ کسی قسم کا تضاد نہیں رکھتی ، کیونکہ فرشتوں کے ذریعے تقدیر الہٰی لوگوں کی شائستگیوں اور لیاقتوں ، اور ان کے ایمان و تقویٰ اور نیّت ِ اعمال کی پاکیزگی کے مطابق ہوتی ہے ۔
یعنی ہر شخص کے لیے وہی کچھ مقدر کرتے ہیں جو اس کے لائق ہے ، یا دُوسرے لفظوں میں ، اس کے مقدمات خود اسی کی طرف سے فراہم ہوتے ہیں ، اور یہ امر نہ صرف یہ کہ اختیار کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتا، بلکہ یہ اس پر ایک تاکید ہے ۔
۲۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس رات کا اس وجہ سے شبِ قدر نام رکھا گیا ہے کہ وہ ایک عظیم و قدر و شرافت کی حامل ہے (جس کی نظیر سورۂ حج کی آیہ۷۴ میں آئی ہے )(ماقدر و اللّٰہ حق قدرہ)” انہوں نے حقیقت میں خدا کی قدر و عظمت کو ہی نہیں پہچا نا”۔
۳۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن اپنی پوری قدر و منزلت کے ساتھ، قدر و منزلت والے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور صاحبِ قدر و منزلت فرشتے کے ذریعے اس میں نازل ہوا ہے۔
۴۔ یا یہ مطلب ہے کہ یہ ایک ایسی رات ہے جس میں قرآن کا نازل ہونا مقدّر ہوا ہے ۔
۵۔ یا یہ کہ جو شخص اس رات کو بیدار رہے تو وہ صاحبِ قدر و مقام و منزلت ہو جاتا ہے ۔
۶۔ یا یہ بات ہے کہ اس رات میں اس قدر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ ان کے لیے عرصۂ زمین تنگ ہو جاتا ہے ، کیونکہ تقدیر تنگ ہونے کے معنی میں بھی آیا ہے و من قدر علیہ رزقہ (طلاق۔۷)۔
ان تمام تفاسیر کا “لیلة القدر “کے وسیع مفہوم میں جمع ہونا پُورے طور پر ممکن ہے اگر چہ پہلی تفسیر زیادہ مناسب اور زیادہ مشہور ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں