ضرورت ایک اور گنگا رام کی

ایسے کام مستقبل کا ادراک رکھنے والے شہ دماغ ہی کر سکتے ہیں۔لاہور شہر کو آباد ہوئے صدیاں بیت گئیں مگر اس کو ایک قابلِ قدر’’منہ متھا‘‘ دینے والا ایک ایسا ہی شہ دماغ ’’سر گنگا رام ‘‘ تھا۔
گو کہ لاہور کو موجودہ چہر ہ دینے میں بہت سے حکمرانوں نے اپنا کردار ادا کیا لیکن اصل خدوخال سر گنگا رام نے نکھارے۔لاہور پنجاب کا دارالحکومت اور کراچی کے بعد پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ ماضی میں یہ شہر مختلف تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔
قدیم زمانے میں یہ شہر لاوا پوری کے نام سے مشہور تھا اور اس کی بنیاد شہزادہ لوہ (LOH) جو کہ راما (RAMA) کا بیٹا تھا،نے رکھی۔ مختلف مورخ اس کی تاریخ دو ہزار سے چار ہزار سال پرانی بتاتے ہیں۔

اُس وقت بھی یہ علاقہ باغات ، بازاروں اور مندروں کی وجہ سے مشہور تھا۔ گیارویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے اس شہر کو فتح کیا اور ملک ایاز کو یہاں اپنا نائب بنایا۔ یہ اس علاقے کا پہلا مسلمان گورنر تھا جس کا مقبرہ آج بھی رنگ محل کے علاقے میں واقع ہے۔

غزنوی کے بعد خلجی، تغلق ، سید ، لودھی اور پھر 1206میں قطب الدین ایبک پہلا مسلمان سلطا ن بنا۔ اس نے بھی اس شہر کو اپنا داراسلطنت بنایا۔ 1524

سے لیکر 1752تک مغل اس شہر پر حکمران رہے، اس دوران اس شہر نے غیر معمولی ترقی کی ، قلعہِ لاہور، جہانگیر ونور جہاں کا مقبرہ، آصف جاہ کا مقبرہ، زیب النساء کا مقبرہ، بادشاہی مسجد، عالم گیر گیٹ، مسجد وزیر خان، شالیمار باغ ، کامران کی بارہ دری، موچی باغ، حضوری باغ اور مختلف باغات ومساجد اور مزارات اسی دور میں تعمیر کیے گئے۔
اٹھارہویں صدی کے آخر میں احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر حکومت کی جسے بعد میں رنجیت سنگھ نے شکست دی اور لاہور کو اپنی سکھ حکومت کا دارالحکومت بنایا۔

سکھوں کے مختلف گوردوارے، ہندئوں کے مندر اور مساجد اس دوران بنوائی گئیں، جس میں رنجیت سنگھ کی سمادھی بھی شامل ہے۔

برطانیہ کا دورِ حکومت 1849سے شروع ہوکر 1947تک رہااس دوران سر گنگا رام جسے ماڈرن لاہور کا بانی قرار دیا جائے تو بے جانہ ہو گا۔

سر گنگا رام نے مختلف عمارات جن میں جنرل پوسٹ آفس، لاہور عجائب گھر ، ایچی سن کالج، گنگا رام ہسپتال، میو سکول آف آرٹس ، لیڈی میکلیگن سکول آف آرٹس ،میو ہسپتال، گنگا رام سکول، جواب لاہور کالج فاروومن یونیورسٹی کہلاتا ہے،

ہیلے کالج، گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ،راوی روڈ ہائوس اور لاہور کا تاج ماڈل ٹائون بنوایا۔ اس دور کی دوسری عمارات میں ہائی کورٹ ، گورنمنٹ کالج، میوزیم ، منٹگمری ہال، ٹولٹن مارکیٹ، لارنس گارڈن، پنجاب یونیورسٹی، پنجاب اسمبلی، لاہور ریس کلب، لاہور چڑیا گھر ، ایف سی کالج، گورنر ہائوس ، ریلوے اسٹیشن اور مختلف گرجا گھر وغیرہ شامل ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد واپڈا ہائوس ، قذافی سٹیڈیم ، الحمراء ، ایوانِ اقبال، ایکسپو سنٹر، پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس،سروسز ہسپتال ، جناح ہسپتال، اتفاق ہسپتال، چلڈرن ہسپتال، شریف میڈیکل سٹی، علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ، مینارِ پاکستان ،جیلانی پارک ، جلو پارک، موٹروے وغیرہ مختلف ادوار میں بنائے گئے۔

قیام پاکستان کے سلسلے میں 1940کا مسلم لیگ کا اہم اجلاس بھی اسی شہر میں ہوا جس میں الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا۔ پاکستان بننے کے بعد اسے پنجاب کا دارالحکومت بنایا گیا۔ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس 1974میں اسی شہر کے حصے میں آئی۔1996

کے کرکٹ ورلڈ کپ کا فائنل بھی لاہور میں منعقد ہوا۔ اس وقت لاہور کی آبادی تقریباً ایک کروڑ20لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اور اس کا رقبہ تقریباً 2000مربع کلومیٹر ہے۔ اس وقت اس لاہور شہر کو انتظامی طور پر 9ٹائونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ہماری قومی معیشت میں لاہور کا حصہ تقریباً 14فیصدہے۔ پاکستان ریلوے اور واپڈا کے ہیڈ کوارٹر بھی لاہور میں واقع ہیں۔ارفع کریم آئی ٹی ٹاور، چند انڈرپاسزاور کچھ اہم شاہراہیںوغیرہ چوہدری پرویز الٰہی نے تعمیر کروائیں۔

جدید لاہور میں انڈر پاسسز ، فلائی اوورز ، رنگ روڈ ، بیجنگ انڈر پاس، آزادی چوک ،گریٹر اقبال پارک، میٹرو بس، اورنج ٹرین جیسے نگینے کنداں کرنے کا سہرا میاں شہباز شریف کے سر رہا ہے۔ ان سب کے باوجود ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے۔
لاہور کو مزید خوبصورت اور سر سبز بنانے کیلئے پنجاب حکومت کو چاہیے کہ مندرجہ ذیل قانون سازی کی جائے:
لاہو رمیں سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں کے اندر موجودملبے کے ڈھیر وں کی جگہ کو سرسبز بنایا جائے۔

ہر گھر میں ایک پودے کی سکیم شروع کی جائے۔پولی تھین کے تھیلوں، خالی بوتلوں اور ڈبوںکو سڑکوں اور پارکوں میں پھینکنے والوں کے لیے مناسب سزا مقرر کی جائے۔شہر کی دیواروں کو وال چاکنگ سے پاک کیاجائے۔بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر خاص طور پر فیروز پور روڈ اور رائیونڈ روڈ پر بڑے پبلک پارک بنانے کی اشد ضرورت ہے۔

بڑی بڑی شاہرائوں پر پبلک لیٹرین بنائی جائیں۔ لاہور کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ملتان روڈ،رائیونڈ روڈ یا فیروزپور روڈ پر قذافی اسٹیڈیم سے بڑا کھیلوں کا مرکز بنانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تاکہ آبادی اور ٹریفک کے بہائو کو کنٹرول کیا جا سکے۔

سرکاری ہسپتالوںمیںEmergency Operation Theatreکی تعداد بڑھائی جانی چاہیے۔مثلاً سروسز ہسپتال کی سر جیکل Emergencyمیںصرف دو Theatreہیں،ان کی تعداد اگر زیادہ ہوگی تو لوگوں کو فوری آپریشن کی میسر آئے گی۔اس وقت تعداد کم ہونے سے فوری امداد کیلئے لوگ پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔یہی صورتِ حال تمام ہسپتالوں کی ہے۔

ضرورت ایک اور گنگا رام کی” ایک تبصرہ

  1. I see You’re really a excellent webmaster. This site loading speed is incredible. It seems that you are doing any unique trick. Furthermore, the contents are masterpiece. you have performed a magnificent task in this subject! Similar here: e-commerce and also here: E-commerce

اپنا تبصرہ بھیجیں