عباس اطہر کی صحافت اور “ادھر تم ادھر ہم “کی کہانی

6مئی 2013ء کو میرے دوست اور ساتھی عباس اطہر کینسر کے موذی مرض سے لڑتے ہوئےزندگی کی بازی ہارگئے ۔لاہور میں 70ء کی دہائی میں سینئر صحافی نثارعثمانی کی رہائش گاہ سے نکلنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کی سیاسی جماعت کے ترجمان اخبار “آزاد”میں انکی شہ سرخی ادھر تم ادھرہم “نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا ۔

عباس اطہر کی یہ سرخی ہی نے پاکستانی سیاست کا پورا منظر نامہ ہی تبدیل کردیااور دلچسپ بات یہ ہے کہ عمر کے آخری حصے میں خبر پڑھے بغیر تاثر سے سرخی نکالنےکے اپنے اس وصف پر وہ خود بہت پیشمان رہے۔حقیقت میں عباس اطہر پیپلز پارٹیکے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو سے عقیدت کی حد تک محبت کرتے رہےمگر خالص پروفیشنل جرنلسٹ ہونے کا اظہار کرنے سے کبھی نہیں چوکتے ،اپنے پیشے کی غیر

جانبداری کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے ،سرخی نکالتے ہوئے کسی لمحے اپنے پرائے کی تمیز نہیں کی ،عباس اطہر کی خبر کے تاثر سے سرخی نکالنے کے ہنر نے انہیں ممتاز مقام عطا کیا تھا ،

اس زمانے میں ہماری جگہ عباس اطہر کے قریبی ساتھیوں میں نثار عثمانی کے چھوٹے بھائی وقار عثمانی بھی نیوز روم میں کام کررہے تھے ،خبر ایجنسی کے توسط سے ذوالفقارعلی بھٹو کی تقریر کا متن انگریزی میں آرہا تھا جسے اردو میں ترجمہ کرنے کی ذمے داری عباس اطہر نے وقار عثمانی کو سونپ رکھی تھی ،

عباس اطہر نے تادیر انتظار کے بعد وقار عثمانی سے کہا کہ اب تک بھٹو کے پوری تقریر کا مطلب

کیا بنتا ہے جس پر انہوں نے بتایا کہ متن کو پڑھ کر اندازہ تو یہی ہوتا ہے کہ ادھر تم ادھر

ہم ہیں ،حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس پوری تقریر میں ایسی بات نہیں کی تھی اور عباس اطہر

نے تقریر کے متن پر سرسری نظر ڈالتے ہوئے شہرہ آفاق سرخی “ادھر تم ادھر ہم “نکال دی ،عباس

اطہر چونکہ عمر کے آخری بارہ سال روزنامہ ایکسپریس میں میرے سینئر ساتھی رہے اور انہیں

تاثر سے سرخی نکالنے کی اپنی اس خوبی پر بہت قلق رہا ۔

وہ اکثر کہتے تھے کہ یار زاہد عباس سید یہ کو تاثر سے سرخی نکالنے والا کام بہت مشکل ہے ،اس سے گریز کیا کریں ،راقم نے اس سے قبل 12سال تک ایک اصول کے تحت روزنامہ دن میں متن کے عین مطابق حرف بہ حرف سرخی نکالنے کی “سزا “کاٹی تھی اور اب جاکر ایکسپریس میں تاثر سے سرخی نکالنے کی اجازت ملی تو کھل کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے لگا

جس پر عباس اطہر میری تعریف کرتے ہوئے اس اسلوب کے نقصان کی نشاندہی بھی کرتے

جس کی وہ سب سے بڑی مثال اسی حادثاتی سرخی” ادھر تم ادھر ہم “کا حوالہ دیتے ۔عباس

اطہر کے ساتھ کام کرنے کا مجھے ایکسپریس سے پہلے بھی دوبار موقع مل چکا ہے ،انکے کام

کرنے کا انداز منفرد رہا ،عباس اطہر 12اپریل 1939کو مغلپورہ لاہور کے قریب تاجپورہ کے گائوں

غازی آباد میں پیدا ہوئے

،والد عبدالرحیم شاہ کی ملازمت کے سلسلے میں جھنگ انکے ساتھ گئے اور ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی ۔میٹرک اور ایف اے ساہیوال سے کیا،اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا ،کچھ عرصہ ریلوے کی ملازمت کرکے چھوڑدی ۔ کراچی جاکر شوکت صدیقی کے اخبار “انجام “سے عملی صحافت کا آغاز کیا ،لاہور واپس آکر روزنامہ امروز سے وابستہ ہوئے ۔روزنامہ آزاد اور مساوات میں عباس اطہر کی سرخیوں نے اخبار کی ریڈرشپ میں ریکارڈ اضافہ کیا ۔

ضیاء الحق کے مارشل لاء میں گرفتار ہوئے ۔1981میں دبئی کے راستے امریکہ چلے گئے ،مارشل لاء

ختم ہونے پر 1988ء میں وطن واپس آئے ،انکی صحافتی زندگی کے دوسرے مرحلے میں دوبارہ مساوات

سے انکی وابستگی کی خبر روزنامہ ایکسپریس میں غلط شائع ہوئی کیونکہ 1988ء میں عباس اطہر

دائیں بازو کے اخبار نوائے وقت کے ایڈیٹر بنے اور بائیں بازو کے اخبار مساوات کی ٹیم میں عباس اطہر

کبھی نہیں رہے ،انکی بجائے مساوات کی ٹیم میں ظہیر بابر ،مسعود اشعر ،منو بھائی ،اعجاز رضوی

،خاور نعیم ہاشمی ،نثار حسین ،ریاض صحافی ،خالد چودھری اور راقم الحروف زاہد عباس سید کام کرتے رہے ۔

کچھ برس بعد سرور سکھیرا ،ضیا ساجد ،پرویز حمید اور حسن نثار آئے تو راقم سمیت دیگر ساتھی

موجود تھے مگر عباس اطہر مساوات صرف ہم لوگوں سے ملنے تو کئی بار آئے مگر یہاں کام نہیں کیا

،عباس اطہر نے جلاوطنی کے دوران لندن سے بینظیر بھٹو کی زیرادارت شائع ہونیوالے جریدے “عمل

“کیلئے ہائیڈ پارک کے عنوان سے کچھ کالم لکھے۔اس وقت “کنکریاں”کے عنوان سے راقم الحروف

زاہد عباس سید امروز میں کبھی کبھار کالم لکھتے رہے ۔1988

ءمیں جب راقم الحروف زاہد عباس سید بائیں بازو کے اخبار مساوات میں گئے تو عباس اطہر دائیں بازو

کے اخبارنوائے وقت کے ایڈیٹر بن گئے۔یہاں مجید نظامی کے کہنے پر “کنکریاں “کے نام سے انہوں نے کالم

شروع کیا ۔عباس اطہر نے اپنی سرخی کا منفرد اسلوب زندہ کیا ،88ءمیں سکھ تحریک پر نوائے وقت کی

سرخی “میں نے رنگا بسنتی چولا ،درجنوں سکھ نعرے لگاتے پھانسی چڑھ گئے” کو پسند کیا گیا ،

پھر نوائے وقت میں ہی نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کی پیشن گوئی پر منتج سرخی

“صبح گیا یا شام گیا “کو بہت سراہا گیا مگرمبینہ طورپر مجید نظامی عباس اطہر سے ناراض ہوئے ۔

روزنامہ پاکستان سے ضیاء شاہد کے جانے پر عباس اطہر اپنی پوری ٹیم کے ساتھ آئے ،یہاں انکی سرخی

“بدمعاش حکومت برطرف “کو بڑی پذیرائی ملی ۔لاہور سے دوپہر کے اخبار کی کامیابی کا سہرا بھی

عباس اطہر کے سر ہے ۔90ءکی دہائی میں عباس اطہر کی زیرادارت خبریں گروپ نے دوپہر کے اخبار

“صحافت “نے تاریخ میں پہلی بار کامیابیاں سمیٹیں ۔زرداری کی گرفتاری پر یہاں عباس اطہر کی

سرخی “تانگہ آگیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قید بول گئی “بڑی مقبول ہوئی ۔میرے ساتھ عباس

اطہر تین موقع پر کئی برسوں تک رہنمائی کرتے رہے ایکسپریس میں آخری اننگ کھیلنے سے پہلے انہوں

نے روزنامہ صداقت کے نام سے اپنا اخبار بھی نکالا جسکے وہ خود چیف ایڈیٹر بھی تھے

اس میں راقم الحروف زاہد عباس سید انکے ساتھ رہے اس ٹیم کے نامور صحافیوں میں ظہیر بابر ،

منو بھائی ،حسن نثار ،خالد چودھری،ریاض صحافی ،سعادت خیالی ودیگر شامل تھے ،راقم الحروف

زاہد عباس سید نے روزنامہ صداقت کے سیاسی ایڈیشن کے انچارج کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالیں

،پہلے ایڈیشن میں “پی این اے کے شہدا اور پیپلزپارٹی کے جیالوں کی خودسوزیوں “کے عنوان سے

کبھی اسلام اور کبھی عوام کے نام پر پبلک کے جذبات سے کھیلنے والے سیاستدانوں کی “واردات”کو

اپنی ریسرچ سے ثابت کردکھایا ،جس پر عباس اطہر نے میرے کام کی کھل کر تعریف کردی ،اسکے بعد

عباس اطہر سے میری نیاز مندی آخری دم تک رہی ،ایکسپریس گئے تو میرے گھر آکر

ساتھ لے گئے ۔عباس اطہر نے “کالم کار “کے نام سے ٹی وی پروگرام کو بھی یادگار بنادیا۔

انکے بعد ایسا پروگرام نہ دیکھا گیا ۔

کالم نوی میں بھی منفرد اسلوب کو رواج دیا ،خاکسار زاہد عباس سید نے انکی یادیں زندہ رکھنے

اور حقائق عوام تک لانے کی خاطر انکے عنوان “کنکریاں”کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا جس پر

قارئین کی حوصلہ افزائی پر ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں،سچ کو من وعن عوام کے سامنے لانے

کی عباس اطہر مرحوم والی روایت کو آگے بڑھانے کے لیے کوشاں رہوں گا۔
عباس اطہر کی گیارہویں برسی پر انکے مشن کو جاری رکھنے کا عزم ہی میرے لئے

اب انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں