جناح ثالث کی گرفتاری اور توڑ پھوڑ ؟

کوئی شخص جو لیڈر یا نیتا بننے کا خواہش مند ہوتا ہے اُسے گرفتاری یا جیل یاترا

سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ سیاست کا میدان کرکٹ گراؤنڈ جیسا نہیں ہے۔ اگر سیاست کرنی ہے تو پھر صبر اور حوصلے کے

ساتھ صعوبتیں جھیلنا بھی سیکھو اور کہو میرے پاکستانیو میں جیل جانے سے نہیں گھبراتا تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے
ہماری اسی سرزمین ہند میں مہاتما گاندھی سے زیادہ مہان کون ہوگا برسوں جیلوں میں رہے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل، سبھاس چندر بوس، مولانا ابوالکلام آزاد اور ہمارے خطہء

پختونستان سے عدم تشدد کے عظیم پرچارک خدائی خدمتگار باچا خان

صاحب جو محض غیروں کی نہیں اپنوں کی جیلوں میں بند، برسوں صعوبتیں جھیلتے رہے۔ آزاد منشن انسانوں کی تو لائینیں لگی ہوئی ہیں۔ آفتابِ عصرِ حاضر نے کیا کبھی نیلسن منڈیلا سے بھی بڑا کوئی نیتا یا رہبر دیکھا ہوگا۔ زندگی کے قیمتی انتیس سال جیلوں میں سڑتا رہا مگر تشدد یا منافرت چھوڑ کبھی انتقام

کی معمولی چنگاڑی بھی اپنے من میں اُبھرنے نہیں دی۔ کسی پر الزامات نہیں لگائے، منافرت نہیں پھیلائی، توڑپھوڑ نہیں کی۔
اس طولانی تمہید کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ سب عظیم الشان

اور ولولہ انگیز لیڈر روشن ضمیر سیاسی قیدی تھے جو قومی کاز کے لیے دکھوں

کو جھیلتے رہے جبکہ نہایت معذرت کے ساتھ گزارش ہے کہ جناب جناح ثالث صاحب

آپ کا معاملہ دوسرا ہے جس طرح کہتے ہیں کہ ”رانجھا رانجھا کردی، نی میں آپے

رانجھا ہوئی“ آپ دوسروں کو چور چور اور کرپٹ کرپٹ کہتے خود چور اور کرپٹ ثابت ہوچکے ہیں۔ چلیں اگر ابھی یقین نہیں تو ہونے جارہے ہیں۔ آپ کو کس فوجی یا پٹواری نے گڑ بھیجا تھا

کہ اتنی بڑی کرپشن کرتے ہوئے چوری کے پیسوں سے اپنی ذاتی پرائیویٹ القادر یونیورسٹی قائم کرو۔ ہمارے اتنے بڑے بزنس ٹائیکون ملک ریاض کو برطانیہ میں 190ملین پاؤنڈز جن کی مالیت پاکستانی کرنسی میں تقریباً ساٹھ ارب روپے بنتی ہے جرمانہ ہوا یہ خطیر رقم حکومتِ برطانیہ حکومتِ پاکستان کے خزانے میں بھیج رہی تھی

مگر آپ نے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کرتے ہوئے رئیل سٹیٹ ڈویلپر کو بیچ میں ڈال کر تحصیل سوہاوہ میں 458کنال اراضی زلفی بخاری کے نام منتقل کروائی، اسے ٹرسٹ کا متولی ظاہرکیا گیا۔ بعدازاں بنی گالہ میں بیٹھ کر اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی بیگم بشریٰ پیرنی اور خود کو ٹرسٹی ڈکلیئر کرتے ہوئے اس کی ملکیت حاصل کرلی۔

وہ ساری کہانیاں میڈیا میں آتی رہی ہیں کہ کس طرح اپنی کابینہ کو بھی اندھیرے میں رکھتے ہوئے دستخط کروائے جاتے رہے۔ گھر کے بھیدیوں نے بھی بہت کچھ اُگل دیا تھا۔ آپ کے مشیر احتساب شہزاداکبر نے دو ارب کی رشوت لیتے ہوئے جو گھناؤنا رول ادا کیا ایک ایک کارستانی کی تفصیل اب اس مقدمے میں عوام کے سامنے آجائے گی۔

قدرت کی لاٹھی پڑنے میں دیر ہے اندھیر نہیں۔ تم نے بے گناہوں پر جس طرح کیچڑ اچھالا ملک کے قابلِ احترام سیاستدانوں کی جس طرح تذلیل کی۔ بلاثبوت جس طرح اپنے سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے جیلوں میں بند کرتے رہے۔ نوازشریف میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔

واشنگٹن سے واپسی پر میں جیل میں بھی تمہیں اذیتیں دو گا، تمہارا اے سی اتروادوں گا۔ رانا ثناء اللہ تمہارے خلاف اگر کچھ بھی نہیں ملے گا تو میں اللہ کو جان دینے والے سے جھوٹی قسمیں دلواتے ہوئے پندرہ کلو ہیروئن تم پر ڈلوادوں گا۔ تم لوگوں کو جیلوں میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دوں گا۔

سیاستدانوں کیا میں اپنے مخالف صحافیوں کو بھی نشانہ عبرت بنادوں گا۔ میر شکیل الرحمن جیسے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے چیئرمین کو جس طرح ناکردہ گناہ پر تم نے مہینوں جیل کی اذیتیں پہنچائیں تم نے تو قاضی فائز عیسیٰ جیسے شریف النفس اور منصف مزاج انسان کو بھی نشانِ عبرت بنانے کے لیے گھٹیا ترین ریفرنس بناتے ہوئے جھوٹے الزامات میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
حالیہ رمضان کی اپنے گھر افطاری میں درویش سب کے سامنے سہیل وڑائچ صاحب کو کہہ رہا تھا کہ اس شخص نے بے گناہ اور معصوم لوگوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں ان کے جواب میں اگر قدرت کی لاٹھی نہ اُٹھی یا ٹوٹ گئی تو ناچیز کا اس لاٹھی پر ایمان ٹوٹ جائے گا۔ پچھلے ہفتے شامی صاحب کو ملتے ہوئے کہا کہ اپنے مشاہدے اور وجدان کی بنیاد پر سیاسی لوگوں کے مستقبل کی مناسبت سے بہت کچھ بیان کرسکتا ہوں اس سلسلے میں خورشید قصوری کی مثال سنائی اور یہ بھی کہا کہ آپ لکھ لیں کہ یہ کھلاڑی لیڈر اب دوبارہ وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر متمکن نہیں ہوسکے گا، یہ گرفتار اور نااہل ہوگا اور اس کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔
درویش کی ہمیشہ سے تمنا تھی کہ یہ شخص کسی سیاسی جدوجہد یا سیاسی جرم کی پاداش میں نہ پکڑا جائے۔ اپنے جنسی ناجائز تعلقات یا بے رہ روی پر بھی قابو نہ کیا جائے کیونکہ ہماری موجودہ سوسائٹی ناچیز کی طرح ایسی چیزوں کو ہلکا محسوس کرتی ہے یا کسی ایسی پکڑ کو محض سیاسی انتقام سمجھا جاتا ہے۔ درویش نے احباب کو ہمیشہ یہ درخواست کی کہ اس کی پکڑ ہیوی اور واضح دکھتی کرپشن میں ہونی چاہیے۔ توشہ خانہ یا فرح گوگی کی لوٹ مارکوبھی ہمارے لوگ معمولی قرار دیتے ہوئے بالواسطہ سمجھ کر ہلکاخیال کریں گے۔ نوازشریف کے خلاف تو ان لوگوں نے بالخصوص ثاقب نثار اینڈ کمپنی نے ایڑی چوٹی کا زور لگالیا مگر ایسا کوئی ایک ثبوت نہیں ملا جسے اپنی کینگروکورٹس میں ہی ثابت کرسکتے پاناما جیسے فضول ترین مقدمے سے بھی جب کچھ نہ ملا تو اقاما میں دھرلیا گیا جسے کہیں بھی پذیرائی نہیں ملی سنجیدہ لوگوں نے اسے محض انتقامی کارروائی اور کامل پلاننگ سے تیار کیے گئے منصوبے کا حصہ جانا۔ یہ جھوٹی سزا سنانے والوں نے اپنے سیاہ چہروں پر مزید کالک ملی۔ آج وقت نوازشریف کی بے گناہی پر مبنی تمام سچائیاں سامنے لاتا چلا جارہا ہے۔ آڈیو لیکس کے ذریعے

جو انکشافات ہوئے ہیں وہ اپنی جگہ، خود مجرمانہ پلاننگ کرنے والوں کے اپنے انٹرویوز میں تقریباً تمام حقائق کھل چکے ہیں۔
پاکستان کو برباد کردینے والی منصوبہ بندی میں استعمال ہونے والا بڑا مہرہ

آج قانون کی گرفت میں آیا ہے تو ردِ عمل میں ہونے والی توڑ پھوڑ بھی اصلیت

کو سمجھنے کے لیے بہت کچھ واضح کر گئی ہے۔ یہ تو ابھی شکر کرے کہ ن لیگ

والوں نے ظالمانہ نیب قانون کو بڑی حد تک منصفانہ بنادیا ہے ورنہ جیسا گھناؤنا

استعمال ہمارا یہ جناح ثالث خود کرتا رہا ہے، اس کے تحت تو 90روز تک اس کی

ضمانت ہی نہیں ہوسکتی تھی۔ اب اگر 14دن بعد یا پہلے بھی اس کی ضمانت

ہوجاتی ہے تو ثبوت اتنے قوی ہیں کہ کم از کم پانچ برس تک اس کی سیاسی نااہلی

یقینی ہوگی۔ تاحیات والی سزا گھٹیا اور وحشیانہ ہے جو کسی کو بھی نہیں ملنی

چاہیے رہ گئی اس کی پارٹی جسے درویش سیاسی پارٹی کی بجائے مانگے تانگے

کا یا بھان متی کا کنبہ خیال کرتا ہے جو فی الحقیقت محض ایک پریشر گروپ ہے

جس میں زیادہ تر پی پی کے بھگوڑے شامل ہیں اندازہ ہے کہ بدلے ہوۓ حالات میں

وہ جذباتی یا جوشیلا نشہ اترنے پر اپنی پارٹی میں واپس پدھاریں گے البتہ جن لوگوں

نے تشدد اور مار دھاڑ کو روا رکھتے ہوئے سرکاری، فوجی یا قومی املاک پر حملے کیے

ہیں لوٹ مار کے ساتھ ساتھ توڑ پھوڑ کرتے ہوۓ آگ لگائی ہے ان کے خلاف بہرصورت

کاروائی ہو گی۔ خدا معاف کرے یہ جس طرح بلوے کررہے تھے درویش کے سامنے پون

صدی قبل کے افسوسناک مناظر آنکھوں کے سامنے آگئے۔ وہی لوٹ مار اور وہی منافرت

البتہ تب دوسرے مذہب والوں کو جسے گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا تھا اب کے

الحمد للہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ویسے انصاف کی رو سے یہ مصنوعی

پارٹی اسی حسن سلوک کی حقدار ہے جو مصری صدر جمال عبدالناصر نے اخوان کے متشدد جہادیوں سے کیا

تھا۔ ہمارے ان بھائیوں کو آج فلسفہ عدم تشدد سمجھنے اور باچاخان کی طرح اس پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے ورنہ تشدد انتقام اور منافرت بھرے جذبات سے ہمارا وہی حال ہوگا جس سے آج کا طالبانی افغانستان گزررہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں