اسلاموفوبیا ۔چند حقائق

اسلام امن اور شانتی کا مذہب ہے لیکن 9/11 کے بعد اس کو دہشت گردی کے زمرے میں مقبول عام کرنے کے لئے یورپی ممالک اور اسلام دشمن قوتوں نے استعمال کیا اور ایسے طریقے سے اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو دہشت گرد کی نگاہ سے دیکھا جانےلگا، جس کے باعث دنیا بھر میں پہلی بار 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نبٹنے کا عالمی دن منایا گیا۔ اِس تاریخ کا انتخاب 2019ء میں نیوزی لینڈ کی النور مسجد میں ہونے والے سانحے کی یاد میں کیا گیا جس میں ایک شخص نے نمازِ جمعہ کے دوران فائرنگ کر کے 51 نمازیوں کو شہید جبکہ 44 کو زخمی کر دیا تھا۔ اسلامو فوبیا مخالف عالمی دن منانے کا خیال پہلی مرتبہ سابق وزیراعظم عمران خان نے 2020ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جانب سے 15مارچ کو ”انٹرنیشنل ڈے ٹو کومبیٹ اسلاموفوبیا“ کے طور پر مختص کیا گیا تھا یعنی ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منایا جائے گا۔اِس دن کو منانے کا فیصلہ 2021 ء میں پاکستان اور اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) کی جانب سے اقوام متحدہ میں پیش کی گئی قرارداد کی منظوری کے بعد کیا گیا تھا۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ قرآن کی بے حرمتی، نبیؐ آخری الزماں کے گستاخانہ خاکوں اور اِسلام سے متعلق توہین آمیز کلمات سے عالم اِسلام کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا تھا کہ نہ صرف مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے بلکہ اسلامو فوبیا کے ذریعے امتیازی سلوک بھی روا رکھا جا رہا ہے جس کے خلاف اقوام متحدہ کو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلاموفوبیا کی شدت کا اندازہ اس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ جیسی جمہوریت میں بھی امریکی ایوانِ نمائندگان کی مسلمان ڈیموکریٹ رکن الہان عمر کو دسمبر 2021 ء میں اسمبلی کے فلور پر ایسے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھاکہ ایوان کی کارروائی سے الفاظ حذف کرنا پڑے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ واقعہ 14 دسمبر کو اْس وقت پیش آیا جب الہان عمر کی طرف سے اسلامو فوبیا کے خلاف ”بین الاقوامی اسلاموفوبیا کا مقابلہ“ کے نام سے پیش کیے گئے بل پر بحث ہو رہی تھی،ریپبلکن پارٹی کے ایک رکن کانگریس سکاٹ پیری نے دعویٰ داغ دیا کہ الہان عمر کا تعلق ایک دہشت گرد تنظیم سے ہے۔ خوش آئند بات یہ تھی کہ کانگریس نے الہان عمر کا پیش کردہ بل منظور کر لیا تھا جب کہ سکاٹ پیری کے الفاظ کو ایوان کی کارروائی سے حذف کر دیا گیا تھا۔ الہان عمر کے اِس بل کا مقصد یہ تھا کہ امریکی محکمۂ خارجہ کے تحت ایک خصوصی نمائندے کا تقرر کیا جائے جو دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے واقعات کو رپورٹ کر کے امریکی محکمۂ خارجہ کے علم میں لائے۔ نمائندے کی تعیناتی صدر کے ذریعے ہو گی اور واضح رہے کہ ایسا ہی ایک نمائندہ پہلے ہی امریکی محکمۂ خارجہ میں موجود ہے جس کا کام عالمی سطح پر یہود مخالف واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔اِس واقعے سے چند ہفتے قبل ر یپبلکن نمائندے لورین بوبرٹ کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں اْنہوں نے الہان عمر کو ”جہادا سکواڈ“ کا حصہ کہتے ہوئے مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دیا تھا، ایک اور ریپبلکن نمائندے مارجوری ٹیلر گرین نے بھی الہان عمر کو ”جہادی“ قرار دیا تھا۔
فلسطین سے لے کر کشمیر تک، یورپ سے لے کر امریکہ اور روس تک، لگ بھگ دنیا کے سبھی خطوں میں کسی بھی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے خلاف کہیں زیادہ کارروائیاں جاری ہیں۔برسوں سے جاری روہنگیا کے لاکھوں مسلمانوں کی نسل کشی پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں روہنگیا مسلمانوں کو ”روئے عالم کی مظلوم ترین اقلیت“ قرار دے رکھا ہے۔ بنیادی انسانی حقوق تو دور کی بات اْنہیں تو خود کو ملک کا شہری کہلانے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ میانمار غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو محض مذہبی عناد کی وجہ سے اپنے شہریوں کو شہری تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔پڑوسی ملک بھارت سے آئے روز مسلمانوں پر تشدد کی ویڈیوز سامنے آتی ہیں،مذہب کوبنیاد بنا کر ہندو انتہا پسند مسلمانوں پر دن رات ظلم ڈھا رہے ہیں لیکن اُنہیں دہشت گرد قرار نہیں دیا جاتا۔دہشت گردی اور خودکش بمباری کی تاریخ بہت پرانی ہے تاہم رواں صدی میں مسلمانوں کو اِس کا ذمہ دار ٹھہرانے کا پروپیگنڈا اِس حد تک کیا گیا کہ کئی جگہ عام آدمی بغیر کسی وجہ اور دلیل کے مسلمانوں سے نفرت کرنے لگااور اسلامو فوبیا کا شکار ہو گیا۔ خودکش بمبار کی اصطلاح نیو یارک ٹائمز کے ایک آرٹیکل میں جرمنی کے حوالے سے 1940ء میں استعمال کی گئی تھی جب کہ اِس کا تذکرہ بعدازاں جاپانیوں کے حوالے سے بھی کیا جاتا رہا تاہم پہلے اِیسی اصلاحات کو کسی مذہب سے نہیں جوڑا گیا۔ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں ایک مخصوص بیانیے کے تحت مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی گئی۔رواں سال کی طرح اب ہر سال یہ دن دنیا بھر کے مسلمان اِسی مناسبت سے مناتے ہوئے اسلام کے خلاف کئی عشروں سے جاری پروپیگنڈا کا جواب دیتے رہیں گے جس سے مسلمان اور اسلام دشمن فوبیا کے خلاف آگاہی پیدا کرنے میں آسانی ہو گی، دنیا کو یہ باور کرانے میں مدد ملے گی کہ جرم کوئی بھی کر سکتا ہے،اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی مجرم کے عقیدے سے تعلق رکھنے والے سبھی افراد مجرم ہیں یا اِس کی بنیاد پر پوری کمیونٹی کو نشانہ بنانا ضروری ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کا طوق گلے میں کئی سال ڈالے رکھا لیکن اسلام کی حقانیت نے غیرمسلموں کو اس بات پرمجبور کر دیا ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ یہ مذہب دنیا کے تمام مسائل کا حل تلاش کر کے ہموار اور بامقصد زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے۔ اسلام کی حقیقت اب ساری دنیا پر واضح ہو گئی ہے لیکن افسوس کہ یورپی ممالک نے اسلامی تعلیمات کو اپنانا شروع کر دیا ہے اور ان کا نظام بہتر ہوا ہےمگر ہم نے اسلامی تعلیمات کو چھوڑنا شروع کیا ہے جس کی وجہ سے ہم پستی کی طرف جا رہے ہیں اور ملکی استحکام کو تر س رہے ہیں۔

اسلاموفوبیا ۔چند حقائق” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں