عمران کھلاڑی یا اناڑی ؟

میں جب عمران خان کے حوالے سے کچھ بھی تحریر کرتا ہوں جو میرے دوستوں تک کسی نہ کسی طرح پہنچتا ہے، تو اکثر دوست فرماتے دکھائی دیتے ہیں کہ آپ عمران خان کے خلاف لکھتے ہیں، حالانکہ میں تو عمران خان کا پرانا شیدائی ہوں اس زمانے سے جب وہ کرکٹ کھیلا کرتے تھے اور کہانیاں سناتے تھے کہ کیسے ان کے کزن کے کہنے پر انھوں نے کرکٹ پر پیسہ لگایا( جوئے بازی کی) اس زمانے سے ہم عمران خان کی صلاحیتوں کے گرویدہ ہیں، اگرچہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی کو معیشت، سیاست اور سفارتکاری جیسے بہت سے شعبوں میں جانچا جاتا ہے اور ان شعبوں سے ان کی کارکردگی کا موازنہ کیا جاتا ہےلیکن ایک اہم شعبہ جس میں عمران خان نے لوگوں کو قدرے مایوس کیا وہ کھیلوں کا شعبہ تھا۔ عمران خان نے باقی تمام شعبوں میں تو صرف ناکامی کمائی مگر ایک کھیل ایسا شعبہ تھا جس میں وہ کوئی کارنامہ انجام دے سکتے تھے لیکن اس کھلاڑی نے کھیلوں کے شعبے کو بھی تباہ کرنے میں ہی اپنا کردار ادا کیا اس کی دو وجوہات ہیں۔ لوگ سمجھتے تو کہ چونکہ عمران خان بڑے کھلاڑی ہیں لہذا سیاستدان بھی بڑے ہوں گے، اور بڑے کھلاڑی اور بڑے سیاستدان تو پھر بڑے کام کرتے ہیں مگر خان کا ہر کام سطحی چھوٹا نکلا۔ خان کے سارے کرتوت بھی چھوٹے ہیں، کوئی اگر بڑا کارنامہ عمران خان نے کیا ہے تو وہ انتخابی میچ فکسنگ ہے۔ جو ان کے نزدیک ایک کارنامہ ہے حالانکہ کام یہ بھی کھٹیا ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے دیگر سیاست دانوں کی طرح عمران خان کے اندر کا کھلاڑی بھی پیچھے رہ گیا اور چوری ( انتخابی چوری + گھڑی چوری + توشہ خانہ چوری) چکاری کی عادت نے انھیں کھیلوں کے شعبے کو بھی اپنی گندی سیاست کی نظر کردیا۔ انھوں نے نوجوانوں سے کھیلوں کے میدان بنانے کے جو وعدے کیے تھے ایک بھی وفا نہ ہوا۔کھیلوں کی مجموعی منصوبہ بندی میں کھیلوں کی حیثیت اور اہمیت میں معمولی سی بھی تبدیلی لانے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے دور میں نیم سرکای، سرکاری اور کارپوریٹ سیکٹر میں کھیلوں کے شعبے ضرور بند ہوئے اور اس سے ایک بڑی تعداد میں کھلاڑی بے روزگار ہوئے جو عمران خان کا کھیل کے شعبے کے لیے ایک بڑا تحفہ تھا۔اس بات سے قطع نظر کہ گزشتہ حکومت کے چار سالہ دور میں کیے گئے اقدامات کو تاریخ کس نظر سے دیکھتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ کھیلوں نوجوانوں کے لیے نیا خون پیدا کرتے ہیں اور کھیل نوجوانوں اور معاشرے میں مقابلے کے رجحان کے ساتھ ساتھ انتہاپسندی کو بھی شکست دینے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ عمران خان دور میں تعلیمی اداروں کے لیے اگر کوئی کھیل کی پالیسی ہی بن جاتی تو کم از کم اسکولوں اور کالجوں سے ہی بڑے بڑے کھلاڑی بن کر ابھر رہے ہوتے مگر عمران خان دور میں اسکولوں اور کالجز میں کھلاڑی بنانے کے بجائے ٹائیگر فورس بنانے پر توجہ دی اور اس ٹائیگر فورس سے پھر 9 مئی کا کام لیا گیا۔ یہ بھی ملک کی بد قسمتی ہے کہ کچھ بڑے انگلش میڈیم اسکولوں میں سال میں ایک بار کھیلوں کا دن منایا جاتا ہے، لیکن سرکاری اسکولوں اور گلی محلوں میں موجود چھوٹے اسکولوں میں تو سرے سے کھیل ہوتے ہی نہیں۔زیادہ تر اسکولوں کے پاس ایک مخصوص کھیل کا میدان ہی نہیں ہوتا مگر انھیں رجسٹرڈ کرلیا جاتا ہے۔ ایسے اسکولوں کی رجسٹریشن کے وقت، کھیلنے کی جگہ کی عدم موجودگی یا کمی کو نظر انداز کیا جانا چایئے. خیر اس موضوع پر جلد لکھوں گا لیکن اپنی بات یہ کہے کر سمیٹ رہا ہوں کہ کھلاڑی اگر کھیل کے شعبے میں ہی صفر کارکردگی کا مالک ہو تو کیا اس کی معیشت یا سیاست میں کارکردگی کا جانچنا چاہیے؟ ایک شخص جو کھیلوں کے شعبے کا بہتر نہ کرسکا اس سے یہ ہی امید رکھی جا سکتی یے کہ وہ ملک کی تباہ کرے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ نوجوانوں کو کھیلوں پر لگانے کے بجائے گالی اور گولی پر لگانے والا پنجاب کا الطاف حسین کسی معافی کا مستحق نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں