عمران خان کا عروج و زوال اور دھندلا مستقبل

کرشماتی شخصیت عمران خان عمر عزیز کا آٹھواں عشرہ گزار رہے ہیں اور انہوں نے رواں برس 9 مئی سے پہلے عروج ہی دیکھا۔ 9 مئی کے واقعات نے عمران خان کو زوال کی اس شاہراہ پر ڈال دیا ہے جو ون وے ہے اور واپس آنا ممکن نہیں۔ لڑکپن میں کرکٹر بنے تو قد کاٹھ اور شکل و صورت سے نوجوانوں کی دلوں کی دھڑکن بنے۔ پاکستان اور بیرون ملک ان کو بطور ورسٹائل کرکٹر بڑی پذیرائی ملی۔ ان کی ایک جھلک دیکھنا نوجوان نسل کیلئے اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ شہرہ آفاق اداکاراؤں اور ماڈلز کے ساتھ ان کی شادی کی افواہیں آئے روز پھیلتی تھیں۔ بطور کرکٹر انہیں شہرت، عروج اور پذیرائی بطور کپتان پاکستان کیلئے کرکٹ ورلڈکپ جیتنے پر نصیب ہوئی۔ یہ پذیرائی آسمان کو چھونے لگی جب انہوں نے اپنی مرحومہ والدہ شوکت خانم سے منسوب کینسر ہسپتال بنانے کا اعلان کیا۔ عوام نے عمران خان کی آواز پر لبیک کہا، جی کھول کر چندہ دیا اور یہ فلاحی منصوبہ مکمل ہوا۔ اس پذیرائی کو دیکھتے ہوئے 1996 میں عمران خان نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور پاکستان تحریک انصاف کے نام سے سیاسی جماعت بنائی۔ سیاسی حلقوں میں عمران خان کو اہمیت دی جاتی تھی۔ دوسری جانب عمران خان ایسے برطانوی خاندان میں بیاہے گئے جس کا شمار امیر ترین گھرانوں میں ہوتا ہے۔ ان کی دلہن جمائما گولڈ سمتھ نے اسلام قبول کرکے اپنا نام جمائما خان رکھا اور پاکستان شفٹ ہوئیں۔ 9 سالہ رفاقت کے بعد اگرچہ جمائما اور عمران کی علیحدگی ہوگئی لیکن اس دوران وہ سیاسی پٹڑی پر ایک کامیاب سوار بن چکے تھے۔ 2013 کے رام انتخابات میں ان کی جماعت کو، کے پی کے میں حکومت سازی کا موقع ملا جسے انہوں نے پر اعتماد طریقے سے نبھایا۔ اس طرح ووٹر کا اعتماد پی ٹی آئی پر مستحکم ہوا۔ 2014 میں مینار پاکستان پر رمران خان کے سیاسی جلسے میں ریکارڈ تعداد میں عوام شریک ہوئے۔ اسی سال اسلام آباد میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف شاہراہ دستور ڈی چوک میں دھرنا دیا اور وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ یہ دھرنا شاید دنیا کی سیاسی تاریخ کا سب سے طویل دھرنا تھا جو چار ماہ سے زیادہ عرصہ جاری رہا۔ نواز شریف مستعفی تو نہ ہوئے البتہ پنامہ لیکڈ کے ایک کیس میں عدالت سے نا اہل قرار پائے۔ کچھ عرصہ جیل میں رہ کر عہ لندن شفٹ ہوگئے۔ 2018 الیکشن کا سال تھا۔ ان انتخابات میں عمران خان کی جماعت کو اتحادیوں سے مل کر وفاق، پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ کچھ عرصے بعد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی پی ٹی آئی کی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ صدر عاف علوی بھی رمران خان کے نامزد کردہ تھے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ عمران خان کی اچھی انڈر سٹینڈنگ تھی اور وہ مترد بار فخر سے کہتے تھے کہ حکومت اور فوج ایک پیج پہ ہیں۔ یہ رھا عمران خان کا عروج ساڑھے تین سال تک عمران خان کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر چمکتا رہا۔ پھر کہانی نے نیا موڑ لیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے پسندیدہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو تبدیل کرکے اسٹیبلشمنٹ نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو اس عہدے پر لانا چاہا۔ عمران خان جنرل فیض کو مزید کچھ عرصہ ڈی جی رکھنا چاہتے تھے۔ پاکستان کے ریاستی نظام میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کبھی بھی سادہ عمل نہیں رہی ہے۔ اس عہدے پر فرد کے چناﺅ یا انتخاب سے لے کر اس ضمن میں مشاورت اور نوٹیفیکیشن کے اجرا تک کا تمام عمل اور مراحل پس پردہ اور رازداری کے پردوں میں ہی چھپے رہتے ہیں۔ کشمکش بڑھی لیکن جیت اسٹیبلشمنٹ کی ہوئی۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ اب ایک پیج پہ نہ رہے۔ عمران خان کی حکومت کو اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ تیرہ اپوزیشن پارٹیوں نے پی ڈی ایم کے نام سے اتحاد بنایا اور اس اتحاد میں شامل جماعت مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو وزیراعظم بنادیا گیا۔ عمران خان کو اتنی مقبولیت وزیراعظم رہ کر نہ ملی تھی جتنی انہیں اپوزیشن میں آکر ملی۔ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ پر الزام لگایا کہ انہوں نے امریکہ کے اشارے پر میری حکومت ختم کی۔ عمران خان کے بیانئے کو بڑی پذیرائی ملی۔ مقبولیت تھی کہ عمران خان کیلئے فرش راہ بنی ہوئی تھی۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی سے استعفے دئے۔ جنوری میں پنجاب اسمبلی اور کے پی کے اسمبلیاں توڑ دیں۔ اپریل میں آئینی طور پر ان دو صوبوں میں نئے انتخابات ہونا تھے۔ سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کرانے کیلئے الیکشن کمشن کو ہدایات جاری کیں۔ عمران خان شہرت کی جس بلندی پر تھے الیکشن میں ان کی پارٹی کلین سویپ کرنے کی پوزیشن میں تھی۔ لیکن حکومت نے فنڈز اور سیکورٹی نہ ہونے کا مؤقف اپنا کر الیکشن نہ کرائے۔ اس دوران عمران خان پر مختلف اوقات میں ڈیڑھ سو سے زائد مقدمات قائم ہو چکے تھے۔ نیب نے ایک انکوائری القادر ٹرسٹ کیس کی شروع کی۔ اس کیس میں 9 مئی کو عمران خان حفاظتی ضمانت کرانے اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے تو انہیں رینجرز نے گرفتار کرکے نیب کے حوالے کردیا۔ ایک مقبول سیاسی رہنما کی گرفتاری پر ردعمل فطری بات ہے لیکن پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں نے معمول کی توڑ پھوڑ کو پیچھے چھوڑ دیا اور لاہور میں فوجی کمانڈر کا گھر اور مسلح افواج کی دیگر تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ پاک فوج نے اس پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور مجرموں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کا اعلان کیا۔ حکومت نے بھی اس کی منظوری دیدی۔ یہاں سے رمران خان کے زوال کا آغاز ہوتا ہے۔ دو تین ہفتوں میں پی ٹی آئی کی ساری قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں ڈال دئے گئے ہیں۔ عمران خان کو بدعنوانی سے لے کر دہشت گردی اور توہین مذہب تک کے 100 سے زائد مقدمات کا سامنا ہے جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے پس پشت سیاسی محرکات کار فرما ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے10 ہزار کارکن اور حامی سلاخوں کے پیچھے ہیں، اوران کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار قیادت کی ضمانت ہوتی بھی ہے تو انہیں کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ معافی اور رہائی صرف اس کو مل رہی ہے جو 9 مئی کے واقعات کی مذمت کرتا ہے اور عمران خان اور ان کی ہارٹی سے لاتعلق ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ ان کے بہت سے قریبی ساتھی اور پارٹی رہنما پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں ۔ عمران خان نے ان علیحدگیوں کو جبری طلاقیں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں زبردستی الگ کروایا گیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا عندیہ دے چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے پارٹی چھوڑنے والے رہنماؤں کو تراشا گیا تھا۔ ان کے مطابق ان کی سیاسی پیدائش گذشتہ دس سال کے دوران ہوئی تھی، ان کے لیے پارٹی چھوڑنا کوئی شرم و حیا والی بات نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنھوں نے چار چار پانچ پانچ بار پارٹی چھوڑی ہے اور انھیں آپ جانتے ہیں جو دوڑ لگا رہے تھے۔ وزیردفاع کے مطابق فوج کو اس وقت سیاست کا فریق بنانا سب سے بڑا جرم ہے۔ اس وقت فوج کو سیاست میں گھسیٹنا مناسب نہیں ہے۔ ان کے مطابق عمران خان بار بار کہتا ہے کہ انھوں نے فوج سے بات کرنی ہے۔ وہ فوج کو اپنا حریف سمجھتا ہے۔ ان کے مطابق ان کا ماضی ہی یہی ہے۔ عمران خان اقتدار کی ہوس میں بہت دور نکل چکے ہیں۔ عمران خان نے دس دن تک نو مئی کے واقعات کی مذمت ہی نہیں کی اور جب بعد میں مذمت کی تو وہ مشروط مذمت تھی۔ وزیر دفاع بھی بادشاہ آدمی ہیں وہ فوج کو سیاسی فریق ماننے کو تیار نہیں۔ شاید فریق کا لفظ فوج کے شایان شان نہیں۔عمران خان پارٹی صفوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور فوج کے اندر ان کی حمایت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگرچہ عمران خان کا کہنا ہے کہ پر تشدد حملوں میں ان کے کارکنوں کے ملوث ہونے کے الزامات منظم پروپیگنڈہ ہیں، جو ان کی پارٹی کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے رہے کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ پی ڈی ایم ہے جو فوج اور میرے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کی وجہ سے فوج کے اندر پریشانی اور اہانت کا گہرا احساس ہے۔ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں ۔ یہ اصول عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم پر لاگو ہوتا ہے۔ عمران خان کے ساتھی جتنی تیزی سے اور بڑی تعداد میں ان سے الگ ہو رہے ہیں مجھے مرگ والے گھر میں بیٹھی عورتوں کی بات یاد آرہی ہے جو میت کے وارثوں کو دلاسہ دیتے ہوئے کہہ رہی ہوتی ہیں” مولا دی امانت سی، اوہنے واپس لے لئی” ( اللہ کی امانت تھی اس نے واپس لے لی). عمران خان کو جو اس کے جو ساتھی چھوڑ کر جا چکے اور جا رہے ہیں یہ انہی کی امانت تھے جن کے کہنے پر انہوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اب ان کے مالک اپنی امانتیں واپس لے رہے ہیں۔ اب یہ امانتیں اپنے مالکوں کے اشارے پر کسی اور درگاہ کی زینت بنیں گی۔ مالکان سلامت اور یہ کھیل سلامت۔ عمران خان کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں۔ اب انہیں مزید کھیلنے کی بجائے باعزت ریٹائرمنٹ کی کوئی سبیل کرنی ہے۔
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں، کوئی نہیں آئے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں