عمران خان پر نا اہلی کی لٹکتی تلوار

پاکستان کی مقتدرہ نے سیاستدانوں کیلئے ہمیشہ دو ہی منصوبے نافذ کیے: اوّل، نا اہل کرو؛ دوم، قتل کرو۔ وطن دشمنی یا غداری کو جواز بنانا، پوسٹ کالونیل ریاستوں کا بنیادی حربہ ہے۔ چند برسوں میں پہلے نواز شریف اب عمران خان نا اہلی کی تلوار کی زدّ میں ہیں۔

یوں تو اس کھیل کی بنیاد پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی جب پاکستان بننے کے 8 روز بعد ہی ، محمد علی جناح نے صوبہ سرحد کی حکومت برطرف کی اور پھر 8 مہینوں بعد جناح صاحب نے کالونیل ایکٹ 1935ء کے تحت وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی برطرف کر دیا، یوں وطن عزیز میں آمرانہ روّیوں کی آبیاری ہوئی جس نے جمہوریت کو مستقبل کیلئے پھانسی گھاٹ میں ہی ہمیشہ کیلئے رکھ دیا گیا۔

قانون ساز اسمبلی کے سربراہ، لیاقت علی خان نے تارا مسیح کا کردار نبھاتے ہوئے جمہوریت کو مقتل گاہ اُتارا جب پبلک اینڈ ریپرینزیٹیٹو آفسز، ڈس کوالیفکیشن ایکٹ (پروڈا) 1949ء میں منظور ہوا اور اس کا اطلاق 14 اگست 1947ء سے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

گورنر جنرل اور وزیر اعظم نے صوبائی اسمبلیوں اور مرکزی اسمبلی کے نمائندوں، وزرا کو پروڈا کی صلیب پر لٹکانے کا آغاز کیا۔ پروڈا کا یہ قانون جمہوریت کو اپاہج رکھنے کے لیے پانچ سال تک نافذ رہا۔ سندھ، پنجاب اور مشرقی پاکستان کے سیاستدانوں کے خلاف کل پانچ ریفرنس اس قانون کے تحت دائر ہوئے۔

چناں چہ ایوب کھوڑو، قاضی فضل اللہ، آغا غلام نبی پٹھان اور حمید الحق چودھری نا اہل قرار دیے گئے۔پروڈا کے تحت سیاست دانوں کو نا اہل کرنے کے ساتھ ساتھ 1954 ء میں اسمبلی توڑ دی گئی۔

اس کے ساتھ ساتھ قانون پوڈو (پبلک آفسز ڈس کوالیفکیشن آرڈر مارچ 1951 ء) نافذ کیا گیا، اس قانون کا اطلاق صرف سیاسی عہدیداروں پر ہوتا تھا۔ پوڈو کے تحت فرد جرم ثابت ہونے پر سیاسی عہدوں پر فائز افراد کو پندرہ سال کے لیے سیاست سے نا اہل قرار دیا گیا۔ اس کا اطلاق بھی 47ء سے کیا گیا۔

پروڈا اور پوڈو میں ایک فرق یہ بھی تھا، کہ پروڈا کے تحت سیاست دان کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے پانچ ہزار روپے جمع کرانا ہوتے تھے، جب کہ پوڈو کے تحت کسی بھی شہری پر نقد رقم جمع کرانے کی شرط نہیں تھی۔
پوڈو سے جب نتائج بر آمد نہ ہوئے، تو سات اگست 1959 ء میں ایبڈو (الیکٹیو باڈیز ڈس کوالیفکیشن آرڈر) نافذ کر دیا گیا۔ نا اہلی کے اس قانون کے تحت فرد جرم ثابت ہونے پر سیاسی عہدے پر رہنے والے فرد کو، منتخب شدہ رکن اسمبلی کو چھے سال تک سیاست سے الگ رکھنے کی سزا متعین تھی۔

اسکندر مرزا کالونیل فوج میں 1946ء میں لیفیٹنٹ کرنل تھے اور پاکستان کے سیاسی نظام پر آسیب کا سایہ بننے کے بعد ، پہلے گورنر جنرل ہوئے پھر صدر پاکستان ہوئے، انھیں خود ان کے نامزد کردہ آرمی چیف ایوب خان نے نااہل کر کے اقتدار چھین لیا۔

ایوب خان نے پاکستان کو جرنیلی طاقت سے فتح کر لیا، پھر اس ایوب خان کو انھی کے نامز د کردہ آرمی چیف جنرل یحییٰ خان نے فارغ کر دیا۔ جنرل یحییٰ خان نے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو جمہوری حقوق دینے کے برعکس ملک توڑنے کو ترجیح دی، حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کیجئے ۔ پہلے ایوب خان، پھر یحییٰ خان کی نوازشا ت سے ذوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آگئے۔ بھٹو کو پھر انھی کے آرمی چیف جنرل ضیاء نے تارا مسیح بن کر پھانسی گھاٹ اتار دیا۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ تیسرا قتل تھا، پہلا لیاقت علی خان، دوسرا فاطمہ جناح اور تیسرا بھٹو۔ جب انھیں نا اہل کرنا مشکل تھا تو لہذا ان کا قتل کرانا فیصلہ ٹھہرا۔

یوں ضیاء کے بطن سے نواز شریف کی پیدائش ہوئی، مد مقابل پیپلز پارٹی تھی۔ اب ان دونوں سیاسی جماعتوں کو دشمنوں میں تبدیل کیا گیا اور پھر دونوں ہی ملک بدر ہوئے، جنرل مشرف نے تارا مسیح بننے کے بجائے تیسری آپشن اختیار کی۔ جنرل مشرف کے حامیان میں عمران خان بھی شامل ہوئے اور ان کی پرورش کی ابتداء کی گئی۔

اکیسویں صدی میں جمہوریت و آمریت کے کھیل نے ایک نئی کروٹ لی، مقتدرہ نے براہ راست عدلیہ کو نا اہلیوں کے کھیل میں سلیپنگ پارٹنر بنا لیا۔ سیاسی میدان سے باہر نکال پھینکنے کے لیے یوسف رضا گیلانی اکیسویں صدی کے پہلے شکار بنے۔ اس پر ن لیگ نے جشن منایا، پھر نواز شریف کو نا اہل کیا گیا اس پر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے جشن منایا۔

مقتدرہ نے پھر انگڑائی لی اور عمران خان کو پارلیمنٹ سے باہر نکال پھینکا۔ اب عمران خان پر نا اہلی کی وہی تلوار دوبارہ لٹکائی جار ہی ہے جو تلوار پہلی بار قائد اعظم محمد علی جناح نے اُٹھائی تھی۔ اور عمران خان کی گردن پر تلوار چلانے کے لیے 11 جماعتوں کا اتحاد بے قرار نظر آرہا ہے، آج عمران کی گردن تلوار کے نیچے ہے، کل کو بلاول زرداری کی گردن پر یہی تلوار چلائی جائے گی۔

نا اہلی کی تلوار سب سے پہلے جناح صاحب نے اُٹھائی، اگر جناح صاحب تلوار اُٹھاکر سیاستدانوں اور جمہوری حکومتوں کی گردنیں نہ کاٹتے تو آج پاکستان کا سیاسی نقشہ ، جمہوری بنیادوں پر استوار ہوتا۔ جب تک سیاسی جماعتیں نا اہلیوں کے فتح کے جشن منانا بند نہیں کریں گی، اُس وقت تک پسماندگی ریاست کا مقدر رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں