میرے بھی ہیں کچھ خواب

تاریخ کی کون سی ایسی کروٹ ہے جس کے بارے آپ خواہش رکھتے ہیں کہ کاش میں اس دور میں پیدا ہوتا اور اس زمانے کا چشم دید گواہ ہوتا؟ اکثر مسلمان تو اس کا سیدھا سا جواب دیتے ہیں، یعنی سرکار ﷺ کا دور۔ لیکن اگر یہ شرط لگا دی جائے کہ ’اُس کے علاوہ‘ تو اپنے اپنے میلان اور مزاج کے مطابق دوست طرح طرح کے دل چسپ جواب دیتے ہیں، کوئی کشیپ اور آنند کی طرح گوتم بُدھ کا چیلا بننا چاہتا ہے، کوئی ارسطو سے لائی سی ایم میں براہِ راست تلمذکی خواہش رکھتا ہے، کوئی صلاح الدین ایوبی کے لشکر اور کوئی مائو کےلانگ مارچ کا حصہ بننا چاہتا ہے، کوئی تحریکِ پاکستان میں قائدِ اعظم کا دست و بازو بننے کی آرزو رکھتا ہے، علی ھذالقیاس۔
اسی طرح مستقبل کے بارے بھی انسانوں کوکہتے سنا ہے کہ میں اپنی زندگی میں ہی ایسا دور دیکھنا چاہتا ہوں، ویسا دور دیکھنا چاہتا ہوں۔اور شاعر وں کا تو پیشہ ہی خواب گری ہے، زہرِ امروز میں شیرینی فردا بھر دینے کے خواب، گراں باری ایام کو ہلکا کر دینے کے خواب، دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق کے خواب، یعنی شرفِ آدمیت، مساوات ، آزادی اور انصاف پر مبنی معاشرے کا خواب۔اگر کوئی ہم سے یہ سوال پوچھے تو جھٹ سے جواب دیں گے ـ’سرمایہ داری نظام کے خاتمے کاخواب‘۔ کیوں کہ ہمارے نزدیک انسانی تاریخ کا کوئی بھی مہذب اور شائستہ شخص ایسے مکروہ نظام کا حامی نہیں ہو سکتا۔ خیر، یہ تو ہو گئے بڑے بڑے خواب، اب پاکستان کی سیاست میں سمٹ کر کچھ چھوٹے چھوٹے خوابوں کی بات کرتے ہیں جن کا تعلق ابو تیریان سے ہے۔ مثال کہ طور پر، جب نواز شریف اپنی دوسری حکومت (1997-99 ) کر رہے تھے تو اُن کی کوئی موثر سیاسی مخالفت موجود نہیں تھی، پیپلز پارٹی پنجاب میں پسپا ہو چکی تھی اور کوئی تیسری بڑی جماعت سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ایسے میں ہم( ’خواب‘ تو ذرا بھاری لفظ ہے ) خواہش رکھتے تھے کہ ملک میں کوئی تیسری سیاسی قوت ہونی چاہیے تاکہ چیک اینڈ بیلنس کے ذریعے حکومت کو راہِ راست پر رکھا جا سکے۔اور بھی بہت سے دوست اس طرح سوچنے لگے تھے، مگر مارشل لا نے اس فطری سیاسی نُمو کا راستہ روک دیا۔ تقریباً ایک دہائی بعد آخرِ کار جب ایک تیسری سیاسی قوت نمودار ہوئی تو بہ وجوہ ہم اُس کا ساتھ نہ دے سکے، اندازہ لگائیے کہ ہم جیسے لوگ جو جمہوریت کے استحکام کیلئے تیسری قوت کو ضروری سمجھنے لگے تھے وہ عمران خان کا ساتھ نہیں دے سکے۔ جب اسٹیٹس کو کی تمام مسلم علامتوں نے اکٹھے ہو کر ’تبدیلی‘ کا نعرہ لگایا تو اہلِ نظر مشکوک ہو گئے، تمام سجادہ نشین، الیکٹیبلزاور عساکر مل کر ’نیا پاکستان‘ بنانے نکلے تو بات صاف ہو گئی، وہ طبقات جو پرانے پاکستان کے سب سے بڑے بینی فشری تھے انہیںنئے نظام کی خواہش کیوں کر ہو سکتی تھی۔وہ ایک مضحکہ خیز کاروان تھا جس میں نسل در نسل گماشتے، جہانِ سیاست کے عادی مجرم اور سادہ لوح افراد خشوع و خضوع سے شامل ہوئے۔اور ہم جیسے جو تیسری قوت کو پنپتے دیکھنا چاہتے تھے، یہ منظر سائیڈ لائین سے دیکھتے رہے۔
اب آجائیے پاکستان کے حوالے سے ہمارے مرغوب ترین خواب کی طرف، یعنی آئین کی بالا دستی کا خواب، وسائل کی منصفانہ تقسیم کا خواب، انصاف پر مبنی ایک مہذب معاشرے کا خواب۔اور آئین کے بالا دست ہونے کا معنیٰ ہوتا ہے عوام اور اس کے منتخب نمائندوں کی بالا دستی۔یہ خواب آج بھی خواب ہے۔ چراغِ خیر اور شرارِ شر 75 سال سے ستیزہ کار ہیں۔ فرزندِ اکرام اللہ کا کردار اس ضمن میں بھی یادگار ہے۔ وہ راتوں رات آئین کی بالا دستی کی جنگ کے مجاہدِ اعظم ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں جب کہ وہ لوگ جو 75 سال سے یہ جنگ لڑ رہے ہیں، زندگیاں قربان کر رہے ہیں، جنہوں نے اپنے بچے اس یُدھ میں جھونک دیے، جیلیں کاٹیں، جلا وطنیاں سہیں، وہ یہ منظر سائیڈ لائین سے دیکھ رہے ہیں۔ کیوں؟ان کے خیال میں پدرِ سلیمان کو آئین کی الف کی بھی سمجھ نہیں، انہیں وفاق کی ’و‘ کا بھی فہم نہیں، وہ تو مرضی کا سپہ سالار لگانے اور اس کے توسط سے اگلی دہائی تک اقتدار میں رہنے کی حرص میں عساکر سے لڑ پڑے ، اور وہ بھی اس بودے انداز میں کہ سارا سفر ہی کھوٹا ہو گیا ۔ نو مئی کا ’انقلاب‘ اتنا احمقانہ تھا کہ کچھ گھنٹوں میں ا یک ایک انچ کر کے لی گئی سویلین اسپیس یک مشت لٹا دی گئی۔نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں آئینی جدوجہد کو زک پہنچی ہے، انسانی حقوق کے محاذ پر ہم پچھڑ رہے ہیں اور فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دیے جا رہے ہیں، اوربرادرِ عظمیٰ خان کے فاشزم سے گھبرائے ہوئے لوگ ان حرکات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں، یہ اصحاب قائل ہیں کہ پدرِ قاسم فاشسٹ ہے، جمہوریت کیلئے خطرہ ہے، اور اس عفریت کا پھن انہی قوتوں کو کچلنا چاہیے جنہوں نے اسے دودھ پلایا ہے۔ بہر حال، اس صورتِ حال میں آئینی بالا دستی کا نعرہ پھیکا پڑ گیا ہے، یعنی’ ’منزل نظر آتی ہے مجھے دُور کچھ اور….شاید مرے مولا کو ہے منظور کچھ اور‘‘۔یہ بہترین وقت تھا سیاسی قوتوں کے اتحاد کیلئے مگر ہوا اس کے یک سر برعکس، ایک شخص کی انا، اس کا تکبر اور منتقم المزاجی نے جمہوری عبا کے بخیے ادھیڑ دیے۔ سیاست نفرت کا بیوپار نہیں ہوا کرتی، سیاست مر جائو یا مار دو کا نام نہیں ہے، یوں تو سیاست دان آپس میں حریف ہوتے ہیں، لیکن در حقیقت صرف سیاست دان ہی سیاست دانوں کے حلیف ہوتے ہیں، اتنی سادہ سی بات عمران خان کو سمجھ ہی نہیں آ سکی۔
بہرحال، کبھی مدھم پڑ جاتا ہے، کبھی چمک اٹھتا ہے، لیکن ہمارا خواب ایک ہی ہے، جمہور کی فتح کا خواب۔ ’’خواب گر میں بھی نہیں، صورت گر ثانی ہوں بس..ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں