لاہور کا چڑیا گھر

لالہ میلہ رام کا شمار انیسویں صدی میں لاہور شہر کے روسا میں ہوتا تھا۔۔ وہ محکمہ ریلوے کے بڑے ٹھیکیدار تھے۔ لاہور۔۔ امرتسر اور امرتسر۔ پٹھان کوٹ ریلوے لائن مقررہ مدت سے پہلے بچھا کر انگریز حکمرانوں کو بھی چونکا دیا۔ انکی رہائش بھاٹی دروازے میں قائم عظیم الشان لال حویلی میں تھی۔ اس زمانہ کی متمول ترین پنجابی شخصیات میں وہ بہت نمایاں تھے ۔ موجودہ واپڈا ہاوس دراصل انکی معروف میلا رام بلڈنگ کو مسمار کرکے تعمیر کیا گیا۔ 21 کنال پر مشتمل یہ شاندار دو منزلہ عمارت متعدد دوکانوں اور دفاتر پر مشتمل تھی اور نائیڈو ہوٹل سے متصل تھی۔ بےشمار جائداد کے ساتھ ساتھ وہ ملکہ وکٹوریہ کے مجسمہ کے سامنے چیرنگ کراس کے بائیں جانب 36 ایکڑ پر محیط ایک بڑے قطعہ زمین کے بھی مالک تھے۔۔جو کمپنی باغ (موجودہ لارنس گارڈن) سے تین اطراف جڑا ہوا تھا۔ درحقیقت یہ ایک بہت بڑا اور قدیم باغ تھا۔ جہاں مغلیہ سلطنت کے دور میں منظم شجر کاری کی گئی تھی۔۔ املتاس۔ جامن۔ پیپل ۔اوک۔کچنار پھلائی۔بکائن۔ارجن۔ لسوڑا۔ شیشم۔ برگد اور سفیدے کے بلند قامت درخت آسمان سے ہمکلام ہوتے۔ سبزے اور خودرو جھاڑیوں اور جنگلی پھولوں کی بہتات آنکھوں کیلئے خیرہ کن منظر پیش کرتی۔غدر کی ناکامی کے بعد کمپنی باغ میں گورے سپاہیوں کی پلٹونیں خیمہ زن تھیں ۔

History of Lahore Zoo
1860 کے قریب ایک انگریز گھڑ سوار میجر نے کمپنی باغ کی ایک فوجی کوٹھی میں انگریز حکمرانوں کو مقامی عمائدین کی جانب سے پیش کئے جانے والے بیش قیمت جانور جمع کرنا شروع کئے۔۔اپنی مدت ملازمت ختم ہونے پر ان جانوروں کو برطانیہ واپس لے جانا ممکن نہ تھا۔۔ لہذا انہی تحائف کی بدولت یہ جانور گھر چند سالوں میں وسعت اختیار کرگیا۔۔ لالہ میلہ رام پرندوں کے شوقین تھے۔۔ انکے باغیچہ میں برگد کے گھنے درختوں کے ساتھ پرندوں کیلئے لکڑی کے بڑے بڑے پنجرے بنوائے گئے۔ فارغ وقت میں سستانے کے لیے اکثر لالہ جی اپنے اہل خانہ کے ہمراہ یہاں وقت گزارتے اور پرندوں کی دلکش آوازیں ماحول کو اپنے مدھ بھرے جادو سے سحر انگیز کر دیتیں۔۔۔ ایک روز لالہ جی ٹہلتے ہوئے کمپنی باغ کے جانور خانہ تک جاپہنچے اور انواع واقسام کے جانوروں کو دیکھ کر بہت متحیر اور محظوظ ہوئے۔۔ چند روز بعد انہوں نے اپنے ایک انگریز دوست کے توسط سے کمپنی باغ کے منتظم سے رابطہ کیا اور اپنے چڑیا خانے اور جانور گھر کے انضمام کی تجویز پیش کی۔۔۔ کافی غوروفکر کے بعد تب کے ڈپٹی کمشنر نے لاہور میونسپلٹی کے سیکرٹری کواس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کے احکام صادر کئے۔۔۔ اور یوں 1872 میں لاہور چڑیا گھر کی بنا ڈالی گئی۔۔۔۔
اس کی انتظامی کمیٹی میں لاہور کی معروف شخصیات شامل تھیں۔ لالہ جی “ستنام دھرم” کے ماننے والے تھے اور مسلمانوں سے بہت تعلق رکھتے ۔ اکثر حضرت علی ہجویری کے مزار پر خاموشی سے حاضری دیتے ۔1890 کے بعد جب لاہور میں بجلی کی آیک دو چھوٹی کمپنیوں نے کوئلے سے بجلی بنانے کا آغاز کیا تو لالہ میلہ رام نے داتا دربار کیلئے بجلی کی فراہمی کا انتظام کیا اور اسکے تمام مصارف بہت بعد تک ادا کرتے رہے۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ چڑیا گھر میں لالہ میلہ رام کی دلچسپی بڑھتی گئی اور ہندوستان کے طول وعرض ۔ برما اور سیلون سے نایاب نسلوں کے جانور منگوائے جانے لگے۔۔۔
گورنر پنجاب لارڈ ایجرٹن سے لالہ جی کے ذاتی مراسم تھے، انکا ایما پر چڑیا گھر کے گرد بلند آہنی جنگلہ لگایا گیا ۔ جس میں ہزاروں من فولاد استعمال ہوا۔۔


سر ایچی سن نے بھی اس کوشش کو خوب سراہا اور بہت جلد لاہور کا چڑیا گھر پورے ہندوستان میں مقبول ہوگیا۔۔۔
سال 1912 میں لارڈ ڈین(Dane)۔ گورنر پنجاب نے یہودی تنظیم کو Free Mason Hall بنانے کیلئے چڑیا گھر کے داہنے حصے کی 30 کنال اراضی دینے کا حکم صادر کیا۔۔ چڑیا گھر کو اس کے تیس ہزار روپے ملے۔۔جبکہ لاہور کے پہلے گورے سپرنٹنڈنٹ پولیس نے 1916 میں چڑیا گھر کی ساٹھ کنال اراضی تھانہ سول لائنز اور پولیس کوارٹرز کیلئے معمولی معاوضہ پر جنرل اڈوائر سے اینٹھ لی۔۔۔ اب چڑیا گھر سمٹ کر 25 ایکڑ پر رہ گیا ۔۔۔

Lahore-zoo-guide-map

ہمارے بچپن کے ایام کی بہت سی خوش کن یادیں اس تفریح گاہ سے جڑی ہیں۔۔۔ سال چھ ماہ بعد یا دوسرے شہروں سے آئے مہمانوں کی آمد کی خوشی میں وہاں جانا لازم ٹھہرتا۔۔ ماڈل ٹاؤن بس سروس میں گنگا رام یا ریگل سینما کے بس سٹاپ اترتے اور پیدل چڑیا گھر جاتے۔۔۔امی جان۔۔ پکنک کے لیئے باسکٹ تیار کروادیتیں۔ ملکہ کے مجسمہ کے سامنے vimto کی گاڑی سے سکواش پیتے۔۔۔رنگارنگ بہار ہوتی اور خوب موج مستی ہوتی۔۔۔ جانوروں سے اٹھکیلیاں ۔ بندروں سے شرارتیں۔ لکھی اور سوزی ہاتھی کی سواری۔ ببر شیروں کی دھاڑ اور اس موقع پر سب لوگوں کا انکے پنجروں کی جانب لپکنا۔ دریائی گھوڑے اور زرافوں کا پرلطف نظارہ ہمارے دل و دماغ پر نقش تھا۔ دھی بھلے۔ گول گپے۔ فروٹ چاٹ اور مشروب کے سٹال اپنی جانب کشا کش کھینچ لیتے۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں