جادو بھری خُنکی

وہ شاخِ سبز تھی
جس میں پرندے چہچہاتے تھے
وہ پھولوں کی طرح کھِلتے سُروں کا گیت تھی، جس کو
ہوائیں گنگناتی تھیں تو خوشبو تال بنتی تھی

وہ کومل بِیل تھی
جو ہر تناور پیڑ کی پہلی تمنّا تھی
چنبیلی کی مہکتی جھاڑیوں سے پھُوٹتی جادو بھری خُنکی
اُسی کا فیض تھی جیسے

اُسے صحرا بُلاتا تھا
تو ننگے پاؤں تپتی ریت پر وہ دوڑ کے جاتی
سما جاتی
حُدی خوانوں کی دِل افروز تانوں میں
فلک کو چُوم کر واپس زمیں سے آ گلے مِلتی

کبھی ساحل صدا دیتا
تو موجِ آبِ سیمیں کی طرح لپکی ہوئی جاتی
ملائم لمس مُردہ ریت کو دیتا حیاتِ نَو

وہ برگد کی گھنیری اور ٹھنڈی چھاؤں تھی
جس کی مسافر آرزو کرتے

وہ ایسا پُل تھی
جو دریا کے دو بچھڑے کناروں کو مِلاتا ہے

وہ شاخِ سبز ، دِل افروز خوشبو، نغمہءِ شیریں
شجر سے ، پھول سے ، تانوں سے خود کو منقطع کر کے
کسی باغی تمنّا کے بھڑکتے سُرخ گھیرے میں
گھڑی بھر وجد میں رہ کر
سُلگتی راکھ میں لَت پَت
جَڑوں سے کٹ کے جینے کی تمنّاؤں کا نوحہ ہے!

حمیدہ شاہین

اپنا تبصرہ بھیجیں