بھٹو کو انصاف دیں!

ذولفقار علی بھٹو کو شہید کیا گیا تو کسی پنجابی شاعر نے کہا تھا
“چولے لتھے انصاف دے خلقت حیران کھڑی” انصاف کی قمیض اتر چکی مخلوق خدا حیران ہے،
آج 4 اپریل ہے آج ہی کے دن ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم شہید زولفقار علی بھٹو کا
پھانسی گھاٹ پر چڑھا کر عدالتی قتل کیا گیا، لیکن قاتلوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھا
کہ جس کوقتل کر رہے ہیں وہ تو صدیوں گونجتا رہے گا، وہ تو صدیوں زندہ رہے گا
لیکن قاتل ہیں کہ آج بھی ان کی قبر پر کتے سو رہے ہیں

دوسری طرف شہید زولفقار علی بھٹو ہے جس کے مزار پر دن رات سلامی پیش کرنے والے
یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔ ہاں ان کے دلوں سے یہ آواز ضرور آتی ہے
کہ بھٹو تو زندہ ہے مگر انصاف کا قتل ہوگیا۔ عمران خان کے لیے جس طرح
دنوں میں فیصلے ہوتے ہیں،وہ ہم سندھیوں کے لیے حیران کن ہے۔
ہمارے سندھی وزیر اعظم کے عدالتی قتل کا ریفرینس صدر آصف علی زرداری نے سپریم کورٹ کو کئی سال پہلے بھیجا تھا
لیکن آج تک سپریم کورٹ اس ریفرینس کوسننے کے لیے تیار نہیں، کیا وجہ ہے

کہ اہل پنجاب کا وزیر اعظم مارشل لاء کے بعد بھی عدالتوں سے ریلیف لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے
مگر سندھی وزیراعظم کو سولی پر چڑھنا پڑتا ہے ؟ خدا کی قسم
ہم سندھیوں کو کیس پنجابی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ سیلاب ہو یا کوئی بھی قدرتی آفت
میں نے اپنی آنکھوں سے پنجاب کے بیٹے اور بیٹیاں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں امداد پہنچاتے نظر آئے۔
اور شہید زولفقار علی بھٹو کے ساتھ جس طرح پنجاب کے جیالوں نے عہد وفا نبھائی
اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، کہتے ہیں نہ کہ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔
ایسا ہی رقص ضیاالحق کے اس قیدی نے کیا جو بھٹو سے محبت کی پاداش میں سولی چڑھ گیا
لیکن اپنے شہید قائد سے دور رہنا گوارا نہ کیا۔ لاہور شہر کے شاہی قلعے کی سرنگوں میں
آج بھی اس رقص کی یادیں موجود ہیں جو ذولفقار علی بھٹو کے سپاہی رزاق جھرنا نے موت کا پھندا
گلے میں ڈالنے سے پہلے بیرک سے پھانسی گھاٹ تک ایک پاؤں پر ناچتے ہوئے کیا تھا۔

پھر شہید عثمان غنی جیسے نوجوان کو کیسے بھول سکتے ہیں، ادریس بیگ اور ادریس طوطی شہید کی قربانی
کو کیسے شام آ سکتی ہے۔ پنجاب کے جیالوں نے قائد عوام شہید ذولفقار علی بھٹو کو
صرف وزیر اعظم منتخب نہ کیا بلکہ شہید سے وفا کے ایسے سلسلے قاہم کیے
جو آج تک مٹنے کا نام نہیں لے رہے آج بھی لاہور کے علاقے باغبانپورہ ، دھرمپورہ، مغلپورہ، وغیرہ
میں کہیں سالوں سے وفا کا سلسلہ قائم رکھنے والے موجود ہیں جنہوں نے ضیاالحق آمریت کا بھرپور مقابلہ کیا
لیکن اپنوں کے ہاتھوں فتح ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شکست کھاگئے۔

اہل پنجاب کی جیالوں کی وفا کو سلام پیش کرتا ہوں مگر ساتھ آج پنجاب کی عدلیہ سے سوال کرتا ہوں
کہ ایسا کیا ہے عمران خان میں جو سندھی وزیر اعظموں میں نہ تھا ؟ سندھی وزیر اعظم تو عربوں کے تحفے
بھی دوبائی میں بیچا نہیں کرتے تھے، سندھی وزیر اعظم تو اس ملک کو ایٹم بم اور میزائل دی گئے
لیکن عمران خان نے تو وزیراعظم بننے کے بعد سی پیک جیسے منصوبے پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے،
سعودی عرب جیسے دوست ملک کو ناراض کردیا، آئی ایم ایف سے ایسا سمجھوتہ کیا
جو آج بھی ہمارا خون چوس رہا ہے مگر آپ لوگ ہیں کہ عمران خان کو ریلیف پر ریلیف
بلکہ گھر کی دہلیز پر ریلیف دیتے ہیں لیکن سندھی صدر آصف علی ذرداری کے کراچی سے راولپنڈی
کیس منتقل کردیتے ہیں، کئی ماہ تک آصف علی ذرداری اور ان کی بہن کو ضمانت نہیں ملتی
جبکہ عمران لاڈلے کے لیے انصاف خود عدالت کی دہلیر پر پہنچ جاتا ہے ؟

عدلیہ کا احترام ہم سب پر واجب ہے، ہم سندھی خدا کے بعد عدالت میں بیٹھے ہوئے ججز سے خوف کھاتے ہیں
کیوں کہ کسی عدالتی فیصلے کا ذکر بھی کردیں تو ہم پر توہین عدالت لگ جاتی ہے
لیکن پنجاب کی ایلیٹ ججز کے تصویروں پر جوتے مارتے نظر آتے ہیں لیکن چونکہ ایک وہ پنجابی
اوپر سے ان کا تعلق پی ٹی آئی سے لہذا سب معاف، شہید زولفقار علی بھٹو کی روح
آج بھی عدلیہ سے سوال کرتی ہے میرا قتل کیوں کیا ؟ مجھے انصاف کیوں نہیں دیتے ؟
کیا شہید زولفقار علی بھٹو کا بعد از مرگ انصاف لینے کے لیے پیپلز پارٹی کو تحریک انصاف
میں ضم کرنا پڑے گا ؟ اگر ایسا ہو تو یہ ثودہ برا نہیں، عدلیہ مزید تاخیر نہ کرے

اور سندھی وزیر اعظم کے عدالتی قتل کی سماعت کا فل فور آغاز کرے تاکہ ہم سندھیوں کا عدالتوں پر
ایسا ہی اعتماد ہو جیسا عمران خان اور ان کے حامیوں کا ہے، شہید زولفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل
میں عدلیہ نے سہولت کاری کا کام دیا تھا، آج جب عدلیہ آزاد ہے
اور عمران خان کو ملنے والا 420% ریلیف اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ عدلیہ آزاد ہے،
اور آزادی سے جسے چاہے انصاف دے اور جسے چاہے سزا دے، لہذا میری محترم عدلیہ سے گذارش ہے
کہ ہم سندھی التجا کرتے ہیں کہ زولفقار علی بھٹو کو انصاف فراہم کردیں،
تھوڑی دیر کے لیے بس یہ سمجھ لیں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی عمران خان ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس قاضی فائز عیسی جیسے دیگر ججز تک خدا کرے میرا کالم پہنچ جائے
کیوں کہ دونوں ججز سے مجھے ہی نہیں کراچی سے خیبر تک ہر پاکستانی کو امید ہے،
خدا کرے میری عدلیہ میں ایسے ہزاروں نام پیدا ہوں جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں،
آخر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے گزارش ہے کہ ہم سندھی وزیر اعظم کے لیے انصاف کی بھیک
مانگ رہے ہیں، امید ہے زولفقار علی بھٹو شہید کو جلد انصاف فراہم کردیا جائے گا،
آپ سے ہم سندھیوں کو ڈھیروں امیدوں ہیں، امید ہے آپ ہماری امیدوں پر پورا اتریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں