پانچ چیلنجز

2019 میں بروکنگز انسٹیٹیوٹ میں جانا ہوا ،ہنوز مستقل رابطہ رہتا ہے۔ وہاں سےایک دوست نے مجھے بروکنگز انسٹیٹیوٹ میں چھپا جنوری 2023 کاایک آرٹیکل بھیجا کہ ان معاملات پر پاکستان میں کیا پیش رفت ہوئی ۔اس آرٹیکل کے مطابق پاکستان کو 5 چیلنجز رواں برس درپیش ہیں ۔ اپریل کا وسط گزر چکا ہےلیکن اگر ہم نظر دوڑائیں تو یہ واضح طور پر محسوس کریں گے کہ ان مسائل میں سے بڑا حصہ تادم ِتحریر حل طلب ہے اور ایک معاملہ ایسا ہے کہ اس کے متعلق ابھی تو راوی چین ہی چین تحریر کر رہا ہے مگر یہ چین صرف صوابدیدی ہے حالاں کہ اس کو امر لازم ہونا درکار ہے ۔ ان مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے اول نمبر پر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ،سیاسی انتشار کو قرار دیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام زندگی کا ایک مستقل حصہ بن چکا ہے اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اس سیاسی عدم استحکام کےوسیلے سے یہ ہدف طے کرلیا گیا ہے کہ اگر ہم سے ملک نہیں سنبھل سکا تھا ۔معاشی معاملات، خارجہ امور ، سلامتی کے تقاضوں کو ہم سنبھالا نہیں دے سکے تھے تو موجودہ حکومت کو بھی اس کا موقع نہیں ملنا چاہئے ورنہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخلی کے بعد قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجانا اور اس پر شور مچاتے رہنا کسی طور پر قابل فہم رویہ نہیں تھا۔ قومی اسمبلی میں موجود رہتے ہوئے حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا چاہئے تھا اور استعفٰی استعفٰی نہیں کھیلنا چاہئےتھا ۔ کھیلنے کا لفظ اس سبب سے استعمال کیا ہے کہ اب موقف یہ ہے کہ ہمارے استعفے کیوں قبول کئے ۔ کیا یہ کوئی مذاق ہے؟ کوئی کھیل تماشا ہے ؟ پھر سیاسی عدم استحکام کو مزید تقویت ایسے انداز میں دی گئی کہ دنیا خاص طور پر قانون سے وابستہ دنیا حیرت زدہ رہ گئی کہ ایک ہی نوعیت کے معاملے میں صرف چند ہفتوں کے فرق سے دو مختلف تشریحات سامنے آئیں اور دونوں تشریحات کا فائدہ صرف ایک ہی شخص کو حاصل ہوا اور موجودہ بحران کی بنیادوں کو تواناکر دیا گیا ۔ جب آپ کسی منصب پر براجمان ہوتے ہیں تو اس منصب کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی آپ کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے تا کہ اس کا بھرم ، ساکھ برقرار رہ سکے ۔ اگر صرف منصب پر آنے کا مقصد طاقت کا حصول ہو اور اس سے رویے میں فرق نہ پڑے تو سوائے نقصان کے اورکچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ویانا میں لوٹ مچ گئی مگر لا وارث کتب خانوں کو لٹیروں نے نہ لوٹا کہ ان کے نزدیک یہ قیمتی سامان نہ تھا۔ کتب خانوں پر نظر بھکاریوں کی پڑگئی وہ کتب خانے اٹھا لائے اور چلتے پھرتے کتابیں فروخت کرنے لگے۔ کچھ عرصے میں لوگوں نے محسوس کیا کہ ان بھکاریوں کی گفتگومیں اعلیٰ درجے کی علمی استعداد استعمال ہو رہی ہیں ،سب حیران رہ گئے ،اس پر تحقیق شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ بھکاری کتب کی فروخت کرنے سے قبل ان کو پڑھتے ہیں پھر ان کتابوں کی قیمت متعین کرتے ہیں لہٰذا ان کی گفتگو بدل گئی ۔ مگر اس سے بھی حیرت ناک صورت حال یہ سامنے آئی کہ ان کے رہن سہن میں کوئی فرق نہ پڑا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کتابوں کو صرف بھاؤ تاؤ کیلئے پڑھتے تھے اور ان کےمطمح نظر کتابوں سے استفادہ کرنانہیں ہوتا تھا اور اس لئے ان کے معاشرتی رویوں میں کوئی فرق نہ پڑا ۔ جب ہم ثاقب نثار، ان کے نقش قدم پر چلتے اشخاص کے رویوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو سامنے آتا ہے کہ ان کی سطح بس اتنی سی ہے کہ کسی کے ساتھ مل کر اس کی انتخابی مہم چلا دی جائے ، ڈرامہ بازیاں کرلی جائیں کیوں کہ کتابیں پڑھنا بھاؤ تاؤ کے لئے تھا ،منصب کا بھرم قائم رکھنے کے لیے نہیں۔ دوسرا چیلنج معاشی صورتحال بیان کی گئی تھی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ریاست کو اپنے اخراجات پورے کرنےاور عوام کو گھر چلانے کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عوام کی شدید خواہش ہے کہ مہنگائی کوبریک لگے اور پھر ریورس گئیر ،مگر صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور آئی ایم ایف کا مطلب ہے ہمارے مغربی دوست ، پھر ہم سے یہ دوست شکوہ کرتے ہیں کہ پاکستان فلاں کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا ہے حالاں کہ پاکستان متوازن خارجہ پالیسی چاہتا ہے مگر جب ہمیں ایک جانب سے ٹھنڈی ہوانہیںآتی ہے تو پھر یہ ہوا جہاں سے آئے اس جانب دیکھنا فطری امر ہے ۔ تیسرا مسئلہ سیلاب متاثرین کی بحالی بیان کیا گیا تھا ،جب معیشت ہی ڈانواںڈول ہو تو پھرمتاثرین کی بحالی بہت مشکل کام ہے۔ اب تو یہ چیلنج بھی درپیش ہے کہ دوبارہ موسم گرما کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کے بعد مون سون ہے۔ شنیدہے کہ اس سال بارشیںبھی معمول سے زیادہ ہونگی اوراگر ایسا ہوا تو یہ سب سے بھاری چیلنج ہوگا ۔ چوتھا چیلنج دہشت گردی کا دوبارہ پنپنا ہے ۔قومی سلامتی کے اجلاس میں اس حوالے سے سابق حکومت کے عاقبت نا اندیشانہ اقدامات کو ڈلیٹ کرنے کی غرض سے فیصلہ سازی کی گئی ہےمگر یہ بھی تحقیقات ہونی چاہئیںکہ ان اقدامات کی وجہ صرف کم فہمی تھی یا درپردہ کوئی اور بھی مقاصد تھے۔ آخری چیلنج سول ملٹری تعلقات بیان کئے گئے تھے ابتدا میں تحریر کیا تھا کہ ابھی تو راوی اس حوالے سے چین ہی چین لکھ رہا ہے مگر یہ صوابدیدی ہے امرِ لازم نہیں ہے حالاں کہ یہ امر لازم ہونا چاہئے ۔ جب تک پاکستان پر یہ تلوار لٹکتی رہے گی کہ یہاں پر سول ملٹری تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کوئی ڈاکٹرائن آجائے گا اس وقت تک جمہوریت کے ثمرات سمیٹے نہیں جا سکتے

اپنا تبصرہ بھیجیں