باپ سراں دے تاج

یتیم تھیونڑ توں بعد بندے کوں پتا لگدے۔۔۔۔۔
جو پھل وی پیریں دے تلے آوے تے کنڈا لگدے
دنیا میں یتیم ہونے سے بڑی مصیبت شاید انسان نے نہیں دیکھی۔یتیمی ایک دیمک کی طرح انسان کی بنیادوں کو چاٹتی رہتی ہے۔یتیمی سے انسان کی آنکھ میں حسرت کا تاثر مستقل طور پر ٹھہر جاتا ہے۔دنیا کی ہر کامیابی باعث مسرت ہونے کے بجائے ایک عجیب سی اذیت ساتھ لاتی ہے، جیسے کوئی بچہ کھلونے کی دکان میں موجود ہر شے خرید کر بھی ایک اداسی لیے گھر جائے، جیسے جیب بھری ہو مگر آپ خود کو مفلس محسوس کریں،جیسے اجلے لباس میں گھر سے نکلتے ہوئے بھی آپ کو اپنے کپڑے میلے اور ملگجے دکھائی دیں،جیسے سردیوں کا سورج بھی سوا نیزے کی حدت دے اور گرمیوں کی دھوپ بھی انسان کی رگوں میں خون جمانے پر قادر ہو جائے، جیسے نیلا آسمان ہمیشہ کے لیے زرد ہو جائے، جیسے زمین دلدل بن جائے اور مکان کھنڈر۔احساس کی دنیا میں عجیب اتھل پتھل سی مچی رہتی ہے۔ہم اپنے آپ میں ایسی چیخیں مارتے ہیں جو ہمارے ذہن و دل سے ٹکرا کر ہمارے لہو میں گونجتی رہتی ہیں۔نگاہیں ہمیشہ دروازے پر اس آس کے ساتھ ٹکی رہتی ہیں کہ شاید۔۔۔۔تقدیر ہمارے لیے گھڑی کی سوئیاں الٹی گھما دے، قدرت ہمارے لیے اپنے قانون میں ترمیم کر ڈالے اور وہ شفیق ہاتھ، وہ مہربان ہونٹ، وہ جانی پہچانی آنکھیں ایک بار صرف ایک بار ہمارے سامنے آ جائیں۔انسان خود کو جس قدر مصروف کر لے، جتنا دھیان بٹا لے، یہ پھانس اس کے گلے سے نہیں نکلتی۔آنسو خشک ہو جاتے ہیں مگر آنکھ نم رہتی ہے۔آپ کسی بھی یتیم کو اس کی خالی آنکھوں سے اور اس کی مسکراہٹ کے پھیکے پن سے، اس کے چہرے پہ محرومی کی ان مٹ خراشوں سے با آسانی پہچان سکتے ہیں۔میں آج سارا دن دیکھتا رہا، تصویریں اور پوسٹیں۔ میری نظم بھی کچھ جگہ پر والد کی تصویر کے ساتھ پوسٹ ہوئی۔کاش خدا ہمارے ساتھ ایسا نہ کرتا۔خدا آپ میں سے کسی کے ساتھ ایسا نہ کرے۔آپ کے سر یہ سائبان سلامت رہے۔خدا میری اماں جان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں