معاشرتی تشدد کا خاتمہ

معاشرے میں تمام افراد جو مختلف رنگ و نسل ، لسانی تضاد اور مذہبی عقائد سے تعلق رکھتے ہیں وہ باہمی بود و باش اور رہن سہن کے لیے ایک خطہ زمین کا فیصلہ کر کے وہاں پر رہائش اختیار کر لیتے ہیں اس طرح محلے علاقے شہر اور ملک تشکیل پاتے ہیں ۔ رواداری ، برداشت میں جول اور دکھ درد میں باہمی امداد کا جذبہ لیے افراد اپنی سوسائٹی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش میں مگن رہتے ہیں ۔ جس کے لیے مقامی قوانین ، کونسلز ، اسمبلیاں اور حکومتیں تشکیل پاتی ہیں جو ہر سطح پر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے انسانوں کو با مقصد زندگی گذارنے کے لیے راہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔ سیاسی نظام میں جمہوریت کو بہترین نظام گردانا گیا ۔ دنیا کے اکثر ممالک میں جمہوریت کو اپناتے ہوئے عوام کو شریک اقتدار کیا گیا ہے۔
معاشرے میں اگر انفرادی طور پر کوئی فرد تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے اور معاشرے کے دوسرے فرد کو تشدد کا نشانہ بناتا ہے تو پورا معاشرہ اس کے قبیح فعل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مروجہ قوانین کے مطابق اس کو سزا دی جاتی ہے اس کے فعل کی کسی سطح پر پذیرائی نہیں ہوتی ۔ بلکہ تشدد اور اس کو اپناپراس کی مروجہ قوانین کے تحت سبزا وار ٹہرایا جا تا ہے۔ انفرادی حیثت کی بجائے معاشرے کا کوئی گروہ تشدد کا راستہ اپناتا ہے اور کسی وجہ کو بنیاد بنا کر معاشرے کے دوسرے گروہ پر تشدد کرتا ہے تو وہ گروہ بھی قانون کی زد میں آتا ہے۔ اور ریاست اس تشدد کو ختم کرنے کے لیے اپنے ذرائع استعمال کرتی ہے اور تشدد ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد لی جاتی ہے۔
آج کل کے جدید معاشرے میں تشدد پر اکسانے کی وجوہات میں علاقائی نسلی، مذہبی ، عقیدہ ، جماعتی اور سیاسی وجوہات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تعلیم بے روش گاری ، منشیات کا استعمال اور جنسی بے راہ روی بھی تشدد کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ ہمارے پاکستانی معاشرے میں تشدد کا عنصر نمایاں ہو رہا ہے۔ آئے دن مختلف اقسام کے تشدد کے واقعات جنم لے رہے ہیں ۔ جن میں عورتوں اور بچوں پر تشدد نمایاں ہے ۔اس کے علاوہ گروہی تشدد بھی بڑھ رہا ہے۔ مختلف علاقوں میں پیدا ہونے والے گروہ انفرادی اور اجتماعی طور پر تشدد کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ مذہب کے نام پر تشدد کرنے والوں کی تعداد نمایاں ہو رہی ہے۔
یہاں مذہب کی توہین کا الزام لگا کر خود ہی سزا دینے کا رجحان تیزی سے جنم لے رہا ہے۔ جس میں عدم برداشت اور قانون کی تابعداری سے انکار نمایاں نظر ا ٓ رہا ہے۔ جس سوسائٹی میں قانون کی عملداری نہ ہو اور قانون کا اخترام نظر نہ آئے وہ معاشرہ نہیں جنگل بن جاتا ہے اور طاقت ور اپنا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ وطن عزیز میں اس قسم کے واقعات بڑھ رہے ہیں ۔
پاکستان میں قومی یکجہتی اور تعلیم کی جتنی آج ضرورت ہے اس سے قبل نہ تھی ۔گروہوں میں بٹی اس قوم کو تعلیم اور یکجہتی کی اشد ضرورت ہے ۔ مذہب بھی اس قوم کو اکٹھا نہیں کر سکا بلکہ بحثیت مسلما ن پاکستانی قوم فرقوں میں بٹی نظر آ رہی ہے مذہبی قیادت کے اختلافات فکری کی بجائے انفرادی اور ذاتی نظر آتے ہیں۔ اگرچہ لسانی احتلافات کی وجہ سے ہم پاکستان کا ایک حصہ گنوا چکے ہیں مگر ہم نے اس ے سبق نہیں سیکھا اور ہمارا معاشرہ اب بھی مختلف اشکال میں تقسیم ہے ۔کہیں لسانی ، کہیں مذہبی کہیں علاقائی بنیادوں پر سیاسی جماعتیں قائم ہیں جبکہ قومی سیاسی جماعتوں کا کردار مضبوط نظر نہیں آ رہا ۔ اس کی کیا وجوہات ہین اس پر سیاسیات کے ماہرین بہتر انداز میں روشنی ڈال سکتے ہیں مگر قومی سیاسی جماعتوں کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ملک میں قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ ملک میں قومی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے وسیع تناظر میں ڈائیلاگ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے مختلف فورمز استعمال کیے جانے چاہئیں صرف ایک فورم قناعت نہیں کرنی چاہیے ۔ قومی اسمبلی ، چاروں صوبائی اسمبلیاں ، سینٹ موجود ہیں۔ ملک کی یوینورسٹیوں ، کالجوں ، سکولوں کے ساتھ ساتھ مسجد کے پلیٹ فارم کو بھی استعمال کیا جائے ۔سیمنیار منقعد کیے جائیں۔ نوجوانوں کو روز گار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت کے لیے بھی انتظام کیا جائے ۔ موجودہ حکومت تعلیمی اداروں مین یکساں نصاب کی تشکیل کے لیے ایک قابل ستائش کام کر رہی ہے اس کو توسیع اور جلد مکمل کرنے کی ضرورت ہے ۔
معاشرتی تشدد کے خاتمے کے لیے قومی ڈائیلاگ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے ۔ اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے مقاصد طے کر کے بات چیت کو آگے بڑھانا چاہیے اس سلسلے میں مذہبی جماعتوں کا کردار کلیدی حثیت رکھتا ہے جو اپنے کارکنان کی تربیت بہتر طریقے سے انجام دے کر معاشرے سے تشد د کے خاتمے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ معاشرتی سطح پر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے کر عوام کو تفریح کے مواقع مہیا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کھیلوں کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔تا کہ نوجوان سوچ تشدد کی طرف راغب ہونے کی بجائے تفریح کھیلوں ، ثقافتی اور تخلیقی سرگرمیوں کی طرف راغب ہو سکے اور ان کے درمیان مضبوط کردار کے افراد کا اضافہ ہو جو تشدد سے نفرت کرتے ہوں اور معاشرے میں امن اور باہمی اخترام کے فروغ کے لیے کردار ادا کر سکیں۔ یونین کونسل کی سطح سے لے کر قومی سطح تک ڈائیلاگ کے فروغ کے لیے فورمز کا قیام ہونا چاہیے تا کہ ہر معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی عادت معاشرے میں وقوع پذیر ہو سکے جو ہمارے قومی کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں کچھ غیر ملکی ہا تھ کو تلاش کرنا ضروری ہو گا جو ہمارے معاشرے کے بگاڑ میں اہم عنصر کے طور پر موجود ہے۔ نوجوانوں میں ملکی محبت کا عنصر اجاگر کرنا بہت ضروری ہے جو دیگر تمام عوامل و عناصر پر بھاری ہو اور اس کا واحد راستہ قومی ڈائیلاگ کی ابتدا ء ہے۔

معاشرتی تشدد کا خاتمہ” ایک تبصرہ

  1. I see You’re truly a just right webmaster. The website loading speed is amazing. It sort of feels that you are doing any distinctive trick. Also, the contents are masterwork. you’ve performed a fantastic activity on this matter! Similar here: dyskont online and also here: Tani sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں