الیکشن، ہلاکتیں اور معیشت

سید محمود شیرازی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فکرمحمود
پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن تاخیر کا شکار ہوں گے، عمران خان کھل کر الیکشن مہم کر پائیں گے، مریم نواز کا پانامہ بنچ کیخلاف بیانیہ اپنانے کی وجہ سے ان پر توہین عدالت لگے گی، اسحق ڈار نے جو میثاق معیشت کیلئے تمام جماعتوں کو ایک ہونے کی دعوت دی ہے اس کی خاطر تمام جماعتیں اکھٹی ہوں گی۔ یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر ایک شہری کی زبان پر ہیں کیوں کہ پی ٹی آئی کی ریلی پر پولیس تشدد کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔ ادھراطلاعات ہیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے حکومت کو رپورٹ دی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں حالات سازگار نہیں ہیں اس لئے الیکشن کو تاخیر کا شکار کیا جائے، کیا ایجنسیوں کی رپورٹ پر الیکشن تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں کیوں کہ سپریم کورٹ نے تو واضح حکم جاری کیا ہوا ہے اور بعض حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات نہیں ہوتے تو وزیراعظم پر توہین عدالت بھی لگ سکتی ہے اور تمام ادارے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کرانے کے اور الیکشن کمیشن کے ساتھ انتخابات کرانے کیلئے تعاون کے پابند ہیں۔ دوسری جانب کے پی کے میں ابھی تک گورنر اور الیکشن کمیشن کے درمیان انتخابات کی تاریخ پر مشاورت مکمل نہیں ہو سکی، تو ایسے حالات میں کے پی کے میں پنجاب کے ساتھ الیکشن ہوں گے یا وہ مزید تاخیر کا شکار ہوں گے یہ بھی ایک مخمصہ بن چکا ہے۔ پی ٹی آئی تو چاہتی ہے کہ ایک ساتھ ہی تمام ملک میں الیکشن ہوں لیکن جلد سے جلد ہوں جبکہ پی ڈی ایم کی نمائندہ حکومت کی خواہش ہے کہ الیکشن مزید تاخیر کا شکار ہوں اور اس کیلئے کیا پاپڑ بیلنے ہیں یہ پی ڈی ایم حکومت کیلئے امتحان بن چکا ہے۔ مریم نواز کا بڑا واضح مطالبہ ہے کہ انصاف کے دونوں پلڑے برابر کئے جائیں تو پھر انتخابات ہوں گے تو بعض لوگ ان کی بات کا مذاق بھی اڑا رہے ہیں کہ اگر انصاف کے دونوں پلڑے برابر کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے نوازشریف کو ملک واپس لایا جائے اور پھر ریلی میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا جائے اور انہیں چار گولیاں لگیں تو پھر جا کر کہیں انصاف کے پلڑے برابر ہوتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک مذاق کی بات ہے ویسے ماضی میں عمران خان کی ویڈیو بھی ریکارڈ پر موجود ہے جس میں وہ اعتراف کر رہے ہیں کہ 2017میں احتجاج کے دوران انہیں سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی فون کال موصول ہوئی تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ سڑکوں پر کیا کر رہے ہیں آپ کو عدالت میں آنا چاہئے۔ اس کے بعد پانامہ بنچ اور نوازشریف کی نا اہلی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ ن لیگ والے تو کہتے ہیں کہ جس طرح بھٹو کا عدالتی قتل ہوا اسی طرح نوازشریف کی نا اہلی اور حکومت کا خاتمہ یعنی ان کے سیاسی قتل میں عدالت کا ہی ہاتھ ہے۔ ادھر عمران خان کھل کر الیکشن مہم کر پائیں گے یہ سوال آج کل تحریک انصاف کے حلقوں میں کافی سنا جا رہا ہے کیوں کہ جس طرح پی ٹی آئی کی جانب سے آٹھ مارچ کو لاہور سے ریلی نکالنے کا اعلان کے بعد پنجاب پولیس نے دفعہ 44 کی خلاف ورزی کو مد نظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کے کارکنان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر ان کے معروف کارکن علی بلال عرف ظل شاہ کی ہلاکت ہوئی جس پر پہلے تو پنجاب پولیس کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا رہا لیکن اب پی ٹی آئی کے ایک کارکن کی اعترافی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ اعتراف کر رہا ہے کہ ان کی گاڑی سے کارکن ٹکر لگنے کے بعد ہلاک ہوا اس نے دونوں پارٹیوں کے موقف کو تبدیل کر دیا ہے۔ کیوں کہ ن لیگ اور نگران حکومت پی ٹی آئی کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرا رہی تھی تو پی ٹی آئی پولیس کو کارکن کے قتل کا ذمہ دار قرر دے رہی تھی لیکن ویڈیو سامنے آنے کے بعد حالات بدل گئے ہیں۔خیر پاکستان میں سیاسی کارکنان کی ہلاکت کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس پر عوام د ل گرفتہ نہ ہو ں کیوں عوام تو ہے ہی سیاسی ایندھن جو استعمال میں لایا جاتا ہے چاہے وہ ن لیگ ہو یا پی ٹی آئی یا کوئی بھی پارٹی انہیں سیاسی ایندھن کیلئے کارکنان کی ضرورت رہتی ہی ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود جس طرح سروے ہو رہے ہیں اور ان کے نتائج بتا رہے ہیں کہ عمران خان اس وقت ملک کی مقبول ترین قیادت ہیں تو پی ڈی ایم حکومت ان برے حالات میں الیکشن کرانے کا رسک لے سکتی ہے یہ بھی ایک اہم سوال ہے کیوں کہ پی ڈی ایم کی حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ معاشی حالات کو کچھ بہتر کئے بغیر الیکشن ہوں اور اس کے بغیر الیکشن ہوئے تو انہیں اپنی سیاسی موت یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ اسی سیاسی موت سے بچنے کیلئے مریم نواز نے جارحانہ رویہ اپنایا ہے اور ان کے مخالف حلقے الزام لگا رہے ہیں کہ انہیں عدلیہ نے کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے وگرنہ ان کے بیانات توہین عدالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ مریم نواز نے جو الزامات عدلیہ اور سابق فوجی افسران پر عائد کئے ہیں تو اگر ان پر تحقیقات ہوتی ہیں یا ہونی چاہئے تو اس کا طریقہ کار کیا ہو گا کیسے ان پر تحقیقات ہوں گی اور اس کیلئے کیا لائحہ عمل اپنایا جائے گا کیوں کہ ماضی میں اسی کوئی مثال موجود نہیں ہے کہ سیاسی رہنماؤں کے الزامات کے بعد ججز یا فوجی افسران کیخلا ف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہو۔ سب سے اہم اور آخری بات معیشت جس پر وزیر خزانہ اسحق ڈار نے تمام جماعتوں کو میثاق معیشت کی دعوت دی ہے، یہ دعوت کتنی قابل عمل ہے، تمام سیاسی جماعیتیں اکٹھی ہوں گی، یا دنیا میں میثاق معیشت کی کوئی پہلے سے مثال موجود ہے یہ وہ سوالات ہیں اگر ان کے جوابات مل جائیں تو پاکستان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

الیکشن، ہلاکتیں اور معیشت” ایک تبصرہ

  1. You are in point of fact a good webmaster. The website loading velocity is amazing. It kind of feels that you are doing any unique trick. Also, the contents are masterwork. you have performed a wonderful task on this subject! Similar here: dyskont online and also here: Najlepszy sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں