انتخابات ہوتے نہیں دکھتے

آج کا کالم اصولاً’’یوم جمہوریہ‘‘ کی ترغیب یا وکالت کے لئے بنتا ہے کیونکہ کسی بھی آئینی و جمہوری ملک میں آئین و جمہوریت سے اپنی وابستگی کو واضح یا پختہ تر کرنےکے لئے اس نوع کا دن ضرور منانا چاہئے، تقریباً تمام مہذب جمہوریتوں میں اس کا چلن ہے زیادہ دور جانے کی بجائے پڑوسی ملک انڈیا کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے جس کی بالغ النظر ذمہ دار قیادت نے آزادی سے پہلے ہی سیکولر جمہوری آئین کی تشکیل پر کام شروع کر دیا تھا اور آزادی کے ابتدائی برسوں میں ہی عصری و قومی تقاضوں سے ہم آہنگ ایسا آئین نافذ کر دیا گیا جو نہ صرف دبے ہوئے طبقات کے حقوق کا ضامن ہے بلکہ ماڈریٹ لبرل انڈیا کی قومی سلامتی اور استحکام کا باعث ہے اور نفاد کی اسی تاریخ کو وہ اپنے ملک اور پوری دنیا میں ’’ریپبلک ڈے‘‘ یا ’’یوم جمہوریہ ‘‘ کی حیثیت سے مناتے ہیں ۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ موقع پرست اور کوتاہ نظر قیادت کو آئین کی اہمیت کا ادراک تھا اور نہ ایسا کوئی ولولہ و عزم ۔درویش کی بہرحال یہ خواہش ہے کہ یہاں 23مارچ کو یومِ جمہوریہ ڈکلیئر کیا اور منایا جائے ۔اس وقت بہت سے اہم ایشوز ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے جن میں سے ایک تو آئی ایم ایف سے معاہدے میں حائل مزید شرائط کا جائزہ ہے جس کے ساتھ ہی مشرف امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے پاکستانی سیاست اور اس میں ہمارے موجودہ لیڈر جناح ثالث کے رول سے متعلق ہے۔ امریکی ڈیموکریٹ رکن کانگریس مائیک لیون نے بھی سابق وزیراعظم سے رابطہ کرتے ہوئے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تفصیلی بات کی ہے انہوں نے پی ٹی آئی کارکنان پر پولیس کے مبینہ تشدد کے حوالے سے بھی سوالات اٹھائے ہیں ۔
زلمے خلیل زاد نے تو واضح لفظوں میں پاکستان کی سیاسی صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہاں اگرسیاسی تباہی کی روش چلتی رہی تو اس سے قومی سلامتی کو خطرہ ہو گا۔ حکمران اتحاد کے زیر کنٹرول پارلیمان پی ٹی آئی لیڈر کو نااہل کروانے اور اس کی پارٹی کو کالعدم کرنے کے اقدامات اٹھاسکتی ہے اگر ایسے ہوا تو پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کی امداد پر شکوک وشبہات پیدا ہو جائیں گے اور اس کے لئے عالمی تعاون بھی کم ہو جائے گا، اس طرح پاکستان میں سیاسی تقسیم اورتشدد مزید بڑھنے کا امکان ہے سوال یہ ہے کہ امریکی نمائندوں کو اس شخص کے حوالے سے اتنی بے چینی کیوں ہےجو کل تک اپنی حکومت کے گرائے جانے کا سارا ملبہ امریکہ پر ڈالتے ہوئے سائفر لہرایاکرتا تھا؟
دوسری جانب ان دنوں ہمارے میڈیا میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری محمد خان بھٹی کی وڈیو ٹیپ کے اتنے ہی چرچے ہیں جتنا سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حالیہ انٹرویو کا تہلکہ ہے۔پنجاب کے سابق پرنسپل سیکرٹری ٹوچیف منسٹر کے بیان کردہ حقائق کو یہ کہتے ہوئے فی الحال نظرانداز کیا جا رہا ہے کہ وہ خاص لوگوں کی کسٹڈی میں ہیں لہٰذا زیر حراست شخص کے بیانات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔درویش کی نظر میں اس اعتراض کی جو بھی حیثیت ہے ہمیں اس نوع کے انکشافات کو زمینی واقعات و حقائق کی مطابقت و مشابہت کے تناظر میں پرکھنا چاہئے ۔
کیا اس نوع کی تمام کہانیاں آڈیو کیسٹوں کی صورت میں قبل ازیں سامنے نہیں آچکیں۔ اگر کسی کو وہ جعلی لگتی ہیں تو ان کا فرانزک کیوں نہیں کروا لیا جاتا ؟موجودہ حالات میں اس نوع کے انکشافات یا حقائق سے چشم پوشی کیسے کی جاسکتی ہے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جیسے ہماری معیشت تباہ حال ہوئی پڑی ہے کچھ ویسی ہی صورتحال ہماری اداروں کی بھی ہے، سیاسی صورتحال پر چوں کہ کھل کر اظہار خیال کیا جاسکتا ہے اور سیاست دانوں کو مطعون کرنا یہاں ایک پسندیدہ روایت رہی ہے جب کہ معاملہ اگر عدالتی و عسکری یا دیگر ادارہ جاتی آ جائے تو اس پر کھلے بندوں حقائق واضح کرنا خاصا مشکل امر ہوتا ہے۔ آج اگر ایک ریٹائرڈ جنرل نے سیاست کے لبادے میں اتارے گئے اپنے کچھ لیڈروں یا صحافیوں کو ننگا کیا ہے تو کچھ اسی طرح سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری نے انصاف کی کرسیوں پر متمکن کئی ہستیوں کے چہروں سے بھی نقاب ہٹایا ہے ۔
درویش یہ بھی عرض گزار ہے کہ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات نوے دن میں ہوتے ہرگز نہیں دے رہے اور یہ لکھے دیتا ہے کہ موجودہ حالات میں اگر یہ انتخابات کروا بھی دیے جائیں تو تب بھی حالات میں ایک فیصد تک بہتری آتے نہیں دکھتی بلکہ ان کے نتائج کو خود وہ پارٹی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہو گی ،جو اس وقت ان کا انعقاد کروانے کیلئے ہر حد تک جانے پر تلی ہوئی ہے۔ جناح ثالث صاحب کچھ نہ کچھ کھڑاک کئے بغیر نہیں بیٹھیں گے۔ ہمارے طاقتور ذمہ داران کو اس کا ادراک ہوجانا چاہئے تاکہ بہتر سدباب ہو سکے ۔مخصوص ذہنیت کو نوے روز میں الیکشن کا تقاضا تو دکھائی دیتا ہے دیگر بہت سے آئینی تقاضے جائیں بھاڑ میں ،معاملات طے کئے بغیر ایسا کوئی بھی شدید اقدام ہمیں نصف صدی پیچھے لے جائے گا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں