عید کارڈ

نوے کی دہائی کی بات ہے کہ عید آنے سے کوئی دس دن پہلے بازاروں، سٹیشنری کی دکانوں اور گلی محلے کے چوارہوں پر عید کارڈز کے سٹال لگے نظر آتے تھے،
ان سٹالز پر مخلتف قیمتوں کے عید کارڈز، انکے علاوہ ان کارڈز پر عید کی مبارکباد اور دعائیں لکھنے کا ساتھ ساتھ عید کے اشعار کے چھوٹے چھوٹے کتابچے اور کہیں کہیں تو مختلف رنگوں کی پینسلیں اور قلم بھی ملتے تھے جن سے کہ کارڈز پر لکھا جائے تو تحریر ذیادہ خوبصورت دکھے،
ایک روپے سے تین روپے تک کی قیمت کے کارڈز پر ذیادہ تر پاکستانی، بھارتی اور کچھ ہالی وڈ کے فلمی ستاروں کا تصاویر، کرکٹرز کی تصاویر، ملک کی دیگر مشہور شخصیات،پھولوں جانوروں، یا مشہور عمارات، یا خوبصورت قیمتی گاڑیوں کی تصاویر ہوتیں،
کچھ کارڈز پر اسلامی تصاویر بھی ہوتیں، یہ کارڈز صرف ایک سائیڈ پر مشتمل ہوتے، جنکی پشت پر آپ اپنا پیغام لکھ سکتے تھے.
پانچ روپے، دس روپے، پندرہ، یا بیس روپے والے کارڈ عمومی طور پر کتابی شکل کے ہوتے تھے، انکی اور انکے لفافے کی کوالٹی قیمت کے حساب سے بہتر سے بہتر ہوتی چلی جاتی ،
ان کارڈز پر ذیادہ تر پھول، کیلی گرافی، دل یا دل کے ساتھ دل کو چیرتا تیر یا کوئی آرٹ کا نمونہ پرنٹ ہوتا، کچھ پر اسلامی پیغام یا تصاویر ہوتیں،
پھر بیس سے تیس یا اس سے ذائد قیمت کے کارڈز تو شاہکار تصور کئے جاتے تھے، اور ایسے کارڈز کسی بھی سٹال پر بالکل درمیان میں اپنی سب سے قیمتی پراڈکٹ کو طور پر آویزاں کئے جاتے تھے،
ان میں کچھ کارڈ تو ایسے تھے کہ ان کو آپ کھولیں تو بیچ میں سے کارڈ کی تین سے چار سطحیں بلند ہوتیں،
کچھ کارڈز کا سائز عام کارڈ کی نسبت بہت بڑا ہوتا،
اور بعد میں تو ٹیکنالوجی نے ترقی کی تو ایسے کارڈ بھی مارکیٹ میں آنے لگےجن میں لائٹ جلتی تھی،
ویسے تو انگریزی میں عید کی مبارکباد والے کارڈ جن پر کہ تصاویر بھی Decent قسم کی پرنٹ ہوئی ہوتی تھیں، وہ بھی تقریباً 15 یا بیس روپے سے اوپر کے ہی ہوتے تھے.
خیر میں تو رمضان کے آغاز سے ہی پیسے جمع کرنا شروع کر دیتا، کیوں کہ تقریباً ساری کلاس سے ہی دوستی تھی، سبھی کو عید کا کارڈ دینا ہوتا تھا تا کہ کوئی خفا نہ ہو،
اپنی قوتِ خرید کے حساب سے میں ایک روپے سے تین روپے کے کارڈ والی رینج میں ہی خریداری کرتا،

کارڈز کا چناو کرتے ہوئے، اس شخصیت کو ذیہن میں رکھا جاتا جس کو کارڈ دیا جا رہا ہے،
جیسا کہ میرا کوئی قریبی دوست جس سے بے تکلفی کچھ ذیادہ ہو اسکے لئے اکثر بندر کی تصویر والا عید کارڈ خریدتا کیوں کے اس سے بھی مجھے کچھ ایسے ہی کی امید ہوتی،
جس کسی سے بےتکلفی ذیادہ نہیں اسے اسلامی یا پھولوں والے کارڈ، اور باقی عام دوستوں کو کرکٹر، فلمی ستارے یا مشہور عمارات والے کارڈ دیتا، شرم و حیا اور محرم نا محرم کا لحاظ رکھتے ہوئے لڑکوں کو مرد سلیبرٹی والے کارڈ، لڑکیوں کو فیمیل سلیبرٹی والے کارڈ، چند ایک ایسے دوست جنکا میں معترف ہوتا تو انہیں شیر والے فوجیوں کے تھیم والے یا کوئی خوبصورت گاڑی والے کارڈز دئیے جاتے، یعنی جن کارڈز سے بہادری یا امیری یا Exclusiveness کا پیغام جائے.
کارڈ خریدنے کے بعد انکو لکھنے کا مرحلہ آتا تھا.
عام طور پر لوگ کارڈ پر آپکو اور آپکے گھر والوں کو عید مبارک کہنے کے علاوہ ایک آدھ دعا، اور کوئی ایک شعر لازمی لکھا کرتے، اور آخر میں ‘ منجانب ‘ اور اسکے آگے کارڈ دینے والے کا نام،
چند اشعار تو کچھ ایسے زبان ذد عام تھے کہ تقریباً ہر دوسرے کارڈ پر وہی شعر پڑھنے کو ملتا، جیسا کہ
” عید آئی ہے زمانے میں
‘ فلاں’ گر پڑا غسل خانے میں”
یا پھر
‘ ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں کیک
میرا دوست لاکھوں میں ایک’

جو کوئی دوست تھوڑا بہت ادبی ذوق رکھتا تھا وہ عمومی طور پر اس شعر کا انتخاب کرتا :
‘ عید آئی ہے، آج تو گلے لگ جا ظالم
رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے’

میری ھمیشہ سے خواہش رہی کہ میں ان شہر آفاق اشعار کو تخلیق کرنے والے شاعروں سے ملوں، لیکن افسوس ایسے ہر دل عزیز کلاموں کے خالق ابھی تک گمنام ہیں،
کچھ لوگ ہوتے تھےکہ جنہیں شوق ہوتا تھا کہ وہ سب سے منفرد نظر آئیں، کچھ ایسا لکھیں جو کسی اور نے نہ لکھا ہو،
جیسا کہ میرے ایک دوست نے مجھے ایک دفعہ عید کا کارڈ دیا تو اس پر مجھے، میرے گھر والوں، میرے رشتے دواروں، محلے داروں، دوست احباب کے علاوہ جسے جسے بھی زندگی میں مل چکا ہوں اور ملوں گا سب کو عید کی مبارکباد اور دعائیں، جبکہ عمومی طور پر لوگ جسے کارڈ دیا جائے اسے اور اسکے اھلِ خانہ کو ہی مبارکباد دیتے تھے،

کچھ لوگ عید کے اشعار والے کتابچے سے مدد لیتے اور اس میں سے ایسے شعر جو عام لوگوں میں مشہور نہ ہوتے، کارڈز پر لکھتے تھے، اور کچھ لوگ تو ان کتابچوں سے شعر لکھ کر انکی تعریف سننے کے بعد ان اشعار کا شاعر بقلم خود ہونے کا دعویٰ بھی کر دیا کرتے،
جن شخصیات سے بے تکلفی نہ ہوتی یا کچھ ذیادہ احترام ملحوظِ خاطر ہوتا، انہیں تو عام پر دعائیہ طرز کی عید کی مبارکباد لکھی جاتی تھی، اور اکثر کارڈ پر اس قسم کے دعائیہ جملے ہوتے کہ گمان ہوتا یہ کارڈ کسی نانی یا دادی نے لکھا ہے.
عام طور پر عید کارڈ لوگ خود جا کر دیا کرتے تھے، دور کے احباب یا رشتے داروں کو پوسٹ کیا جاتا تھا،
لیکن کچھ مخصوص کارڈز ایسے ہوا کرتے تھے کہ جنہیں نہ پوسٹ کر سکتے تھے، نہ ہاتھوں ہاتھ دے سکتے تھے، انہیں یا تو کسی مخصوص وقت پر جبکہ اس شخصیت کا وہاں سے گزر ہونا ہوتا جسے کہ کارڈ پہنچانا ہے، اسکے کے راستے میں پھینکا جاتا، یا اس ڈاک کی ترسیل کے لئے کسی بچے کی خدمات لی جاتیں،
یہ کارڈ عام طور پر پندرہ یا بیس روپے والی کیٹیگری سے اوپر کے ہوتے، ایسے کارڈز پر دل، یا دل کو چیرتا تیر، لہو، آنسو، پھول یا دکھی عشقیہ اشعار پرنٹ ہوتے تھے، ان پر رنگ رنگ کے قلموں خوشخط لکھنے کی کوشش کی جاتی.
دکھی ٹوٹے دل شاعروں کی انتہائی دکھی اور مایوس کن شاعری سے تحریر کو مزین کیا جاتا،
عام طور پر ‘ منجانب’ کے آگے کوئی نام نہ ہوتا، اگر کچھ لکھا بھی جاتا تو کوئی نہ کوئی لقب یا عرفی نام لکھ دیا جاتا.
اکثر ایسے کارڈز پر خصوصی طور پر خوشبو کا چھڑکاؤ بھی کیا جاتا تھا.
یعنی کارڈ کی قیمت، دیگر لوازمات، ترسیلِ ڈاک کا کام کرنے والے بچے کی خدمت مل ملا کر کارڈ جس تک پہنچانا ہوتا اس تک پہنچتے پہنچتے کارڈ بھیجنے والے کو تقریباً عام کارڈز کی نسبت دگنی یا تین گناہ قیمت ادا کرنی پڑتی، لیکن کارڈ اگر جس تک پہنچنا تھا اس تک پہنچنے کے بعد اسکے گھر والوں تک بھی پہنچ جاتا تو کارڈ بھیجنے والے کو اسکی بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی تھی،
خیر پچھلے کچھ سالوں میں زمانے میں جدت اور تیزی سے آتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ہر معاشرے کے کلچر، روایات، رسم و رواج اور زندگی گزارنے کے انداز میں بھی تبدیلیاں آئیں،
عید کی مبارکباد، ٹیلی فون کالز یا ایمیل کے ذریعے دی جانے لگیں پھر موبائل فون میسیج کا دور آیا اور اب وٹس ایپ، فیسبک اور دیگر سوشل میڈیا کے ذرائع اس کام کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں،
کارڈز بھیجنے کا سلسلہ آہستہ آہستہ بالکل ختم ہو گیا ہے،
اب تو سوشل میڈیا نے ہر شخص کی مصروفیت اس قدر بڑھا دی ہے کہ آپ ہر کسی کا عید مبارکباد کا میسج پڑھ بھی نہیں پاتے، بغیر پڑھے ہی جوابی مبارکباد کا جو میسج آپ نے کسی ایک کو کیا ہوتا ہے، وہی سب کو کاپی پیسٹ کرتے جاتے ہیں،
اب نہ کارڈ خریدنے اور خریدتے وقت اس شخصیت کو ذیہن میں رکھنے کا اہتمام ہوتا ہے جسے کارڈ آپ نے دینا ہے،
نہ عید کی مبارکباد لکھنے کے لئے وہ مغز کھپائی، کہ اچھے سے اچھا پیغام لکھا جائے،
چاہے اکثر کارڈز پر تحریری مواد ایک جیسا ہوتا تھا، لیکن سب میں اپنائیت، محبت اور احساس کی خوشبو مختلف،
اور اکثر لوگ تو خود کو ملنے والے کارڈز کو کئی کئی سال سنبھالے رکھتے، اور اکثر نکال کر پڑھا کرتے، محسوس کیا کرتے،
خیر میرا اس تحریر کو لکھنے سے مقصد کارڈ یا وٹس ایپ میسیج کے زمانوں کا موازنہ کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کھوئے ہوئے احساس، اس جذبے، اس اپنائیت کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنا ہے جو ھمیں تمام تر فاصلوں کے باوجود بھی ایک دوسرے سے جوڑے رکھتا تھا،
آج ماڈرن ورلڈ میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی سہولیات نے شاید ھمیں کچھ ایسے عجب انداز میں قریب کیا ہے کہ ھم ایک دوسرے سے بہت دور ہو چکے ہیں….

اپنا تبصرہ بھیجیں