روزے کے تربیتی و اجتماعی اثرات

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

👈 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ۞ أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ۞ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللہَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ۞👈
اے ایمان والو! روزہ اس طرح تم پر لکھ دیا گیا ہے (فرض کر دیا گیا ہے) جس طرح تم سے پہلے والوں پر لکھ دیا گیا تھا۔ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں (اس کے باوجود) اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو جائے یا سفر میں ہو۔ تو اتنے ہی دن اور دنوں میں پورے کرے۔ اور جو اپنی پوری طاقت صرف کرکے بمشکل روزہ رکھ سکتے ہوں تو وہ فی روزہ ایک مسکین کی خوراک فدیہ ادا کریں۔ اور جو اپنی مرضی سے کچھ (زیادہ) بھلائی کرے تو وہ اس کیلئے بہتر ہے اور اگر تم (فدیہ دینے کی بجائے) روزہ رکھو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے۔ اگر تم علم و واقفیت رکھتے ہو۔
ماہ رمضان وہ (مقدس) مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں راہنمائی اور حق و باطل میں امتیاز کی کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جو اس (مہینہ) میں (وطن میں) حاضر ہو (یا جو اسے پائے) تو وہ روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اتنے ہی روزے کسی اور وقت میں (رکھے)۔ اللہ تمہاری آسانی و آسائش چاہتا ہے تمہاری تنگی و سختی نہیں چاہتا اور یہ بھی (چاہتا ہے) کہ تم (روزوں کی) تعداد مکمل کرو۔ اور اس (احسان) پر کہ اس نے تمہیں سیدھا راستہ دکھایا تم اس کی کبریائی و بڑائی کا اظہار کرو۔ تاکہ تم شکر گزار (بندے) بن جاؤ۔
👈 تفسیر نمونہ روزے کے کئی جہات سے گوناگوں مادی اور روحانی آثار ہیں۔ جو اس کے ذریعے وجود انسانی میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم اس کا اخلاقی پہلو اور تربیتی فلسفہ ہے۔ روح انسانی کو لطیف تر بنانا ،ارادہ انسانی کو قوی کرنا اور مزاجِ انسانی میں اعتدال پیدا کرنا روزے کے اہم فوائد ہیں سے ہے۔ رازے دار کے لئے ضروری ہے کہ حالت روزہ میں آب و غذا کی دستیابی کے باوجود اس کے قریب نہ جائے اور اسی طرح جنسی لذات سے چشم پوشی کرے اور عملی طور پر ثابت کرے کہ وہ جانوروں کی طرح کسی چراگاہ اور گھاس پھوس کی قید میں نہیں ہے۔
سرکش نفس کی لگام اس کے قبضے میں ہے اور ہوا و ہوس اور شہوات و خواہشات اس کے کنڑول میں ہیں۔ حقیقت میں روزے کا سب سے بڑا فلسفہ یہی روحانی اور معنوی اثر ہے۔ وہ انسان کہ جس کے قبضے میں طرح طرح کی غذائیں اور مشروبات ہیں۔ جب اسے بھوک یا پیاس لگتی ہے وہ ان کے پیچھے جاتا ہے۔ وہ درخت جو باغ کی دیوار کی پناہ میں نہر کے کنارے اگے ہوتے ہیں ناز پروردہ ہوتے ہیں۔ یہ حوادث کا مقابلہ بہت کم کرسکتے ہیں۔ ان میں باقی رہنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ اگر انہیں چند دن پانی نہ ملے تو پژمردہ ہوکر خشک ہو جائیں جب کہ وہ درخت جو پتھروں کے در میان پہاڑوں اور بیابانوں میں اگتے ہیں۔ ان کی شاخیں شروع سے سخت طوفانوں، تمازت آفتاب اور کڑاکے کی سردی کا مقابلہ کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور طرح طرح کی محرومیت سے دست و گریباں رہتی ہیں۔ ایسے درخت ہمیشہ مضبوط، سخت کوش اور سخت جان ہوتے ہیں۔ روزہ بھی انسان کی روح اور جان کے ساتھ یہی عمل کرتا ہے۔ یہ وقتی پابندیوں کے ذریعے انسان میں قوت مدافعت اور قوت ارادی پیدا کرتا ہے اور اسے سخت حوادث کے مقابلے کی طاقت بخشتاہے۔ چونکہ روزہ سرکش طبائع و جذبات پر کنڑول کرتاہے لہٰذا اس کے ذریعے انسان کے دل پر نور و ضیاء کی بارش ہوتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ روزہ انسان کو عالم حیوانیت سے بلند کرکے فرشتوں کی صف میں لے جا کھڑا کرتا ہے۔ لعلکم تتقون (ہوسکتا ہے تم پرہیزگار بن جاؤ) ان تمام مطالب کی طرف اشارہ ہے۔
مشہور حدیث ہے:الصوم جنة من النارروزہ جہنم آگ سے بچانے کے لئے ڈھال ہے۔
(1)ایک اور حدیث حضرت علیؑ صلوۃ سے مردی ہے کہ پیغمبر اسلامؐ سے پوچھا گیا کہ ہم کون سا کام کریں جس کی وجہ سے شیطان ہم سے دور رہے۔ آپؐ ﷺ نے فرمایا:الصوم یود وجہہ و الصدقہ تکسر ظہرہ و الحب فی اللہ و المواظبة علی العمل الصالح یقطع دابرہ و الاستغفار یقطع و تینہروزہ شیطان کا منہ کالا کر دیتا ہے۔ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ خدا کے لئے محبت اور دوستی نیز عمل صالح کی پابندی سے اس کی دم کٹ جاتی ہے اور استغفار سے اس کی رگ دل قطع ہوجاتی ہے۔
(2)نہج البلاغہ میں عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت امیر المؤمنینؑ روزے کے بارے میں فرماتے ہیں:و الصیام ابتلاء لا خلاص الخلقاللہ تعالی نے روزے کو شریعت میں اس لئے شامل کیا تاکہ لوگوں میں روح اخلاص کی پرورش ہو۔
(3)پیغمبر اکرم ؐسے ایک اور حدیث مردی ہے۔ آپؐ نے فرمایا:ان للجنة بابا یدعی الریان لا یدخل منہا الا الصائمون بہشت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ہے ریان (یعنی۔ سیراب کرنے والا) اس میں سے صرف روزہ دار ہی داخل جنت ہوں گے۔ حضرت صدوق مرحوم نے معانی الاخبار میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بہشت میں داخل ہونے کے لئے اس دروازے کا انتخاب اس بناء پر ہے کہ روزہ دار کو چونکہ زیادہ تکلیف پیاس کی وجہ سے ہوتی ہے جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہو گا تو وہ ایسا سیراب ہوگا کہ اسے پھر کبھی بھی تشنگی کا احساس نہ ہوگا۔
(حوالہ جات)۱۔ بحار الانوار، ج۹۶، ص۲۵۶۔۲۔
بحار الانوار، ج۹۶، ص۲۵۵۔۳۔
نہج البلاغہ، کلمات قصار، نمبر ۲۵۲۔۴۔
بحار الانوار، ج۹۶، ص۲۵۲

روزے کے تربیتی و اجتماعی اثرات” ایک تبصرہ

  1. You are in point of fact a excellent webmaster. This site loading velocity is incredible. It sort of feels that you are doing any unique trick. Furthermore, the contents are masterpiece. you’ve done a wonderful job in this topic! Similar here: najtańszy sklep and also here: E-commerce

اپنا تبصرہ بھیجیں