معاشی ابتری بعد از آئی ایم ایف پروگرام

ہمارے زعمائے حکومت اور خصوصاً وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل آئی ایم ایف پروگرام منظور ہونے کے بعد طلب انسان کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں گے اور ہم نے وطن عزیز کو ڈی فالٹ ہونے سے بچا لیا ہے اب مہنگائی کا جن بھی قابو میں آجا ئے گا اور عوام کو ایک بڑا ریلیف ملے گا مگر کہاں گیا سب کچھ یہ تمام بغلیں جھانک رہیں ہیں اور وزیر خزانہ ٹی وی پر آ کر ٹسوے بہا رہے ہیں۔ عوام ہیں کہ کھائیں کہاں سے بجلی کا بل ادا کریں تو کہاں سے پیٹرول گھٹنے کا نام نہیں لیتا اور ڈالر رکنے کو نہیں آتا ۔ معاشی ماہرین اور وزراء دانتوں سے اپنی انگلیاں کاٹ رہے ہیں۔ ٹی وی سکرین پر شام زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے وزراء عوام میں جانے سے کترا رہے ہیں۔ اکیلا وزیراعظم شہباز شریف ہی دن رات سیلاب زدگان کے درمیان موجود ہے کسی دوسرے کی جرات نہیں کہ سیلاب زدگان کا سامنا کر سکیں ۔ جو قدرتی آفت کے ہاتھوں مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں یہ لاوا کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد ایک ارب سولہ کروڑ ڈالر بھی موصول ہو گئے ہیں مگر معاشی ابتری میں بہتری کے کوئی اثار نظر نہیں آ رہے ۔ آئی ایم ایف پروگرام کے بل بوتے پر جن دوسرے ذرائع سے ڈالرز کے مصول کی توقعات دم توڑ گئی ہیں اور معاشی بہتری کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق مہنگائی کے مارے عوام کو بجلی کے بلوں کا سامنا ہے ۔ استعمال شدہ یونٹس کی تعداد کم ہوئی جا رہی ہے مگر صارف کا بل شیطان کی آنت کی طرح بڑھتا جا رہا ہے آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت خصوصاً وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کو اس طرح اپنے چنگل میں جکڑا ہے کہ بے چارے حکومت لے کر پچھتا رہے ہیں ۔ حسب سابق سارا کا سارا الزام عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کو دیا جا رہاہے جو عوامی حمایت کے جھنڈے گاڑ رہاہے۔
بات ہو رہی تھی آئی ایم آیف کے معاہدے کے بعد آنے والے ممکنہ ثمرات کی ۔ جو عنقا ہو چکے ہیں اور مہنگائی کے طوفان نے پاکستانیوں کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی وطن واپسی کو موخر کر دیا جس پر مفتاح اسماعیل نے شکر ادا کیا ۔ ان پر اسحاق ڈار کی واپسی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے اور بحر خزانہ میں غوطہ زن ہیں۔ جان بچتی ہے یا نہیں اس کا اندازہ انہیں بھی نہیں ہے۔
عام آدمی کو اس سے غرض نہیں ہے کہ ڈالر یا بین الاقوامی مہنگائی جسے بعد از کرونا اثرات سے تعبیر کیا جا رہا ہے کیوں ہے۔ جب غریب آدمی کے بچوں کو رات کو روٹی کھانے کو نہیں ملے گی تو پھر اس کا دماغ تو گرم ہو گا۔ دوست ممالک سے مددکئے وعدے بھی فردا ہو گئے ۔ سیلاب زدگان کے لیے آنے والی امداد کی موثر او ر بر وقت تقسیم شہباز حکومت کے لیے بڑا امتحان ہے اگر سیلاب زدگان کو بر وقت اشیائے ضروریہ مل جاتی ہیں تو ان کے دکھوں میں کمی واقع ہو گی۔اور معاشرے میں اس کے اچھے اثرات پڑیں دوسرا بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک کا اعتماد بحال ہو گا۔ کیمرے کی کھلی آنکھ سب کچھ دیکھ کر دنیا کو دکھا رہی ہے۔ جس کی وجہ سے گڈ ول کے فوراً اثرات نظر آئیں گے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر گذشتہ ادوار میں ہم نے زراعت کو جس طرح نظر انداز کیا ہے اس کی مثالنہیں ملتی ۔ ہمیں غربت کے دائرے اور آئی ایم ایف کے چنگل سے ملک کا کسان نکال سکتا ہے کھانے کے تیل پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو یقین نہیں آتا کہ پاکستان زرعی ملک ہے حکومت تیل پید اکرنے والی فصلوں کو تھوڑی سی مدد فراہم کرے تو ہم تیل درآمد کرنے کی زحمت سے بچ کر زرمبادلہ بچا سکتے ہیں اور کم قیمت پر گھی عوام کو مہیا کر سکتے ہیں۔ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ ہم 30ارب ڈالر کی برآمدات

کرتے ہیں اور 80ارب ڈالر کی ہماری درآمد ات ہیں لہذا ہم کس طرح اس کمی کو پورا کر سکتے ہیںاس کا جواب ہے کہ ہم چاول چینی کی برآمدات میں اضافہ کریں اور کھانے کے تیل ، گندم ، کپاس اور دالوں کی درآمدات بند کر کے مقامی کسان کو سہولت و قرضہ فراہم کر کے چھ سے آٹھ ماہ میں اس پر قابو پا کر ملک کو خوشحال بنا سکتے ہیں۔ماضی میں ہمارے زرعی سیکٹر کو امداد باہمی کی سپورٹ حاصل ہوتی تھی جس کی وجہ سے زراعت ترقی کر رہی تھی مگر ہمارے صنعت کاروں نے حکومت کی مدد سے امداد باہمی کے سیکٹر کو رئیل اسٹیٹ تک محدود کر دیا اور پرائیویٹ کمپنیاں بنا جعلی بیج کھاد اور کرم کش ادویات کسانوں کو فراہم کر کے زراعت کو مفلوج کر دیا۔ او ر ملک کو درآمد کے چکر میں الجھا دیا جہاں انہیں نوکر شاہی کی مدد حاصل تھی جو کمیشن بنانے کے چکر میں درآمدات کو محفوظ طریقہ گردانتے ہیں۔
وزیر خزانہ اور وزرات خزانہ کے حکام کو چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف کء چنگل سے نکلیں اور ملک کو حقیقی معاشی ترقی کے راستے پر گامزن کریں۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر ٹیکس پر ٹیکس لگانے سے گریز کریں اور عوام کو ٹیکس کے بیلنے سے نہ نچوڑیں ۔ ترقی کی سکیمیں متعارف کروائیں اور انہیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں حصہ دار بنائیں پھر دیکھیں کیسے ڈالرز کی بارش ہوتی ہے۔

محمد خالد وسیم ایڈووکیٹ

معاشی ابتری بعد از آئی ایم ایف پروگرام” ایک تبصرہ

  1. Wow, superb weblog structure! How lengthy have you been running a blog for? you made running a blog glance easy. The entire glance of your site is fantastic, as well as the content material! You can see similar here sklep online

اپنا تبصرہ بھیجیں