Split Power Theory

ادراک

ڈاکٹر حسن فاروقی

الیکشن الیکشن الیکشن۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن ہو بھی جائیں تو پھر کیا ہو گا ؟ دو صوبوں میں ہو یا پورے پاکستان میں۔ کیا الیکشن امرت دھارا ہے جس کے بعد شفا ہی شفا ہے، امن ہی امن ہے۔ پورے ملک میں چین کی بانسری بجنے لگے گی؟۔ہرگز نہیں . ابھی کچھ دنوں کی بات ہے تمام سیاسی پارٹیاں حکومت حکومت کھیل رہی تھیں مگر چین کہاں تھا ؟ ماردھاڑ ، پنجہ آزمائی بام عروج پر تھا۔ مخالفین کو چاروں شانے چت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا تھا جو ہنوز جاری ہے ۔ الیکشن کے بعد بھی یہ کھیل اسی شدومد کے ساتھ جاری و ساری رہے گا ۔ تو کیا پھر انتخابات نہ کرائے جائیں ؟ جی نہیں یہ طرز فکر بھی درست نہیں۔ اسمبلیوں کے اختتام پر نوے دن کے اندر اندر اور ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے لہذا انتخابات ضرور ہونے چاہئیں۔ جی ہاں یہ انتخابات تو ہونگے تاہم عوام کے پاس کوئی چوائس نہیں ہے پھر سے انہی بازوؤں پر تکیہ کرنا ہو گا جو بار بار آزمائے ہوئے ہیں۔ پھر سے پرانے وعدوں پہ اعتبار کرنا ہوگا لیکن جب بعد ازاں وہی کھیل کھیلا جائے گا جو کئی برسوں سے جاری ہے تو پھر بتائیے بیچاری عوام کدھر جائے گی ؟ عوام کو تو امن چین اور روزگار چاہیے بس۔۔۔! اس وقت عالم یہ ہے کہ قرضوں کے آہنی شکنجے سے گردن چھڑانے کے لیے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ اسے بھول جائیے کہ 2013 میں قرضے آٹھ ہزار ارب روپے تھے، نواز حکومت نے 16 ہزار ارب کر دیے اور پھر عمران دور میں بیس ہزار ارب روپے ہوگئے۔ الیکشن کے بعد بننے والی نئی حکومت ان بیس ہزار کو برا بھلا کہتے کہتے مزید بیس ہزار ارب کا اضافہ کر دے گی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ۔
عوامی سروے کے مطابق عوام الناس کی بڑی تعداد سیاسی جماعتوں یا لیڈروں کی موجودہ کھیپ سے کسی طور مطمئن نہیں لہزا بی٘ن یقین ہے کہ آئندہ الیکشن میں کسی ایک پارٹی کا ایک تہائی اکثریت سے فتحیاب ہونا ممکن نہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پارٹی رہنماؤں کے باہمی اختلافات اب نفرت اور دشمنی میں بدل چکے ہیں۔ بظاہر ہاتھ ملانے والے بھی بغل میں چھری منہ میں رام رام کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں لہذا ایک یا دو صوبوں میں حکومت بنا لینے کے باوجود مرکز میں حکومت بنانا اور اسے کامیابی سے چلانا آسان نہ ہو گا۔ آپ نے نوٹس کیا ہو گا کہ اکثر حکومتی اقدامات کے بر خلاف عدلیہ فیصلہ سنا دیتی ہے اور کام رک جاتا ہے۔ پچھلی حکومتوں کا گِلہ تو آپ نے اکثر سنا ہی ہو گا کہ ہماری رجیم کیوں چینج کی۔۔۔۔ مجھے کیوں نکالا۔۔۔۔فلاں عدالتوں کا لاڈلا ہے اور فلاں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہر کوئی مداخلت کا رونا روتا ہے۔ الیکشن کے بعد جب نئی حکومت بنے گی تو کیا یہ مداخلت ختم ہو جائے گی ؟ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبوں میں ہماری حکومت ہوگی تو جناب یہ ایک خواب کے سوا کچھ نہیں نہ ہی دو تہائی اکثریت کسی ایک کا مقدر بنے گی۔ پہلے بھی جوڑ توڑ کے ساتھ حکومتیں بنتی آئی ہیں اگلے الیکشن کے بعد بھی جوڑ توڑ کے ساتھ ہی حکومت بنے گی۔ دراصل ہم لوگ جس حد تک مذہبی، لسانی، علاقائی گروہ بندیوں اور ذاتی مفادات میں بٹ چکے ہیں اس ماحول میں ایک قومی سوچ کا بیدار ہونا معجزے کے بغیر ممکن نہیں۔ کیا کریں کہ ہار ماننا ہمارے قومی مزاج کا حصہ نہیں رہا ۔ جیت جائیں تو کہتے ہیں سب ٹھیک ہے اگر ہار جائیں تو دھاندلی کا نعرہ لگا کر پھر سڑکوں پر جلسے جلوس اور ریلیاں نکالتے ہیں پھر ہارس ٹریڈنگ شروع ہو جاتی ہے اور پھر دھڑن تختہ ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے اغیار بھی اس کھیل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہوں گے جنہیں ہماری ہنگ پارلیمنٹ ہی سوٹ کرتی ہے مگر ہم خود بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں کسی سے کم نہیں ہیں۔
قارئین کرام اس سارے پس منظر میں بتائیے کہ آئیندہ الیکشن کے بعد بھی کیا اچھا ہو گا؟ لہذا آج وہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہم یہ فیصلہ کریں کہ آیا ہم نے اسی طرح لولی لنگڑی جمہوریت کے ساتھ ہی عدم استحکام کا سفر جاری رکھنا ہے یا اپنا قبلہ درست کرنا ہے۔ اگر واقعتاً کرنا چاہتے ہیں تو پھر کچھ نہ کچھ out of the box کرنا ہوگا ۔ یہ مان لیتے ہیں کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ مگر جناب جمہوریت ہے کہاں؟ یہ مانا کہ آئین کی پاسداری ضروری ہے مگر یہ کوئی آسمانی صحیفہ بھی نہیں کہ جس میں ردوبدل نہ کیا جا سکتا ہو۔ حقیقت یہ ہےکہ یہاں ہر کوئی چودھری ہے جو کسی دوسرے کی چودھراہٹ تسلیم نہیں کرتے۔ مکہ کے سرداروں کا بھی یہی حال تھا سب سرداروں کی موجودگی میں کسی ایک کی سرداری برداشت نہ کی جاتی۔ حجرِ اسود کی تنصیب کا جھگڑا آپ نے پڑھا ہو گا جس کا حل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
Power sharing formula
کے تحت نکالا یعنی حجرِ اسود چادر میں رکھ کر تمام سرداروں کو پّلو پکڑا دیا۔ یوں وہ کام خوش اسلوبی سے سر انجام پا گیا۔ ہمارے جمہوری نظام میں بھی
Split Power Theory
اختیار کرتے ہوئے کچھ ایسی ہی تبدیلیاں کرنا ہونگی۔ اس تھیوری کے تحت جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے اختیارات کا مرکز و منبہ وزیراعظم کی بجائے مجلس شوریٰ یا قومی سلامتی کونسل کو بنانا ہو گا۔ کونسل کا سربراہ وزیراعظم ہو جبکہ ممبران میں سارے “سردار” یعنی تمام وزراء اعلیٰ، آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان اور اپوزیشن لیڈر ہوں۔ اس طرح قومی مفاد میں کیے گئے تمام فیصلوں پر تمام ذمہ داران یکساں طور یا اکثریت رائے کی بنیاد پر متفق ہونگے تو پھر نہ تو کوئی فیصلہ عدالتوں میں چیلنج ہوگا اور نہ ہی کچھ سیکورٹی رسک ہو گا۔ وزراء کی حتمی تعداد مقرر کر دینی چاہیے اور وہ اپنے اپنے محکموں پر فوکس کریں۔اس طرح حکومتی معاملات میں عوامی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ذمہ دار ریاستی اداروں کی نمائندگی بھی ہو جائے گی۔ یوں آئے دن کی کِل کِل اور چپقلش بھی
ختم ہو جائے گی یوں ہم عدم استحکام سے استحکام کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں مگر اس کے لیے قومی ڈائیلاگ کرنا پڑے گا۔ اگر ہمارے ارباب اختیار اب بھی مل کر نہ بیٹھے، مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا تو عوام کے آگ بگولا چہروں کو دیکھئیے یہ آخری موقع ہے۔ دا غلطی گنجائش نشتا۔

Split Power Theory
اختیار کرتے ہوئے کچھ ایسی ہی تبدیلیاں کرنا ہونگی۔ اس تھیوری کے تحت جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے اختیارات کا مرکز و منبہ وزیراعظم کی بجائے مجلس شوریٰ یا قومی سلامتی کونسل کو بنانا ہو گا۔ کونسل کا سربراہ وزیراعظم ہو جبکہ ممبران میں سارے “سردار” یعنی تمام وزراء اعلیٰ، آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان اور اپوزیشن لیڈر ہوں۔ اس طرح قومی مفاد میں کیے گئے تمام فیصلوں پر تمام ذمہ داران یکساں طور یا اکثریت رائے کی بنیاد پر متفق ہونگے تو پھر نہ تو کوئی فیصلہ عدالتوں میں چیلنج ہوگا اور نہ ہی کچھ سیکورٹی رسک ہو گا۔ وزراء کی حتمی تعداد مقرر کر دینی چاہیے اور وہ اپنے اپنے محکموں پر فوکس کریں۔اس طرح حکومتی معاملات میں عوامی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ذمہ دار ریاستی اداروں کی نمائندگی بھی ہو جائے گی۔ یوں آئے دن کی کِل کِل اور چپقلش بھی
ختم ہو جائے گی یوں ہم عدم استحکام سے استحکام کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں مگر اس کے لیے قومی ڈائیلاگ کرنا پڑے گا۔ اگر ہمارے ارباب اختیار اب بھی مل کر نہ بیٹھے، مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا تو عوام کے آگ بگولا چہروں کو دیکھئیے یہ آخری موقع ہے۔ دا غلطی گنجائش نشتا۔

Split Power Theory” ایک تبصرہ

  1. Wow, fantastic weblog structure! How lengthy have you been running a blog for? you make running a blog glance easy. The overall glance of your website is magnificent, as smartly as the content! You can see similar: sklep online and here dobry sklep

اپنا تبصرہ بھیجیں