متناسب نمائندگی سے ہی حقیقی تبدیلی ممکن ہے ..

تحریر :۔ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان
اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے بڑے ،انتہائی گھمبیر اور خطرناک معاشی ،سیاسی اور اخلاقی بحران سے گزررہا ہے۔معاشی تباہ حالی اپنی بدترین شکل میں موجود ہے ۔جبکہ ملک غیریقینی سیاسی دلدل میں تیزی سے پھنستا جارہا ہے ۔معاشی بحران سے نکلنے کیلئے سودی معیشت ،شاہانہ اخراجات ،اشرافیہ کو ملنے والی اربوں روپے کی ناجائز مراعات ،انتظامی مصارف میں پے درپے اضافہ،کرپشن کے منحوس دائروں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے ۔اسی طرح سیاسی بحران کے خاتمہ کیلئے مختلف دیگر تجاویز کے ساتھ متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنانا انتہائی ضروری ہے ۔موجودہ طریق انتخاب سنگل ممبر حلقہ جاتی نظام ہے ۔سنگل ممبر حلقہ جاتی نظام میں جیتنے والا بسا اوقات 30فیصد ووٹ لیکر کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ 70فیصد ووٹروں کی نمائندگی اسمبلی میں نہیں پہنچتی ۔ان کے ووٹ ضائع ہوجانے کے خدشہ کی وجہ سے ووٹروں کی انتخاب میں دلچسپی نہیں رہتی اس لئے شرح ووٹنگ بہت کم رہتی ہے ۔پارٹیاں بھی الیک ٹیبلز یعنی جیتنے والے گھوڑوں بلکہ گدھوں کی تلاش میںرہتی ہیں۔ اس لئے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا معیار بہت پست ہوتا ہے ۔پارٹی منشور کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔حلقہ کا فرد ہی اصل اہمیت رکھتا ہے ۔ووٹر یا پارٹی اس کے کردار ،مثلا قبضہ گروپ ،منشیات فروش ،رسہ گیر وغیرہ کی طرف نہیں دیکھتے ۔ اس طریق انتخاب میں لوکل یا انجینئرڈ دھاندلی کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے ۔برادری ازم اور مقابلے کی فضا کی وجہ سے لڑائی جھگڑے بلکہ قتل و غارت تک نوبت پہنچتی ہے ۔جعلی ووٹنگ عروج پر ہوتی ہے ۔الیکشن کمیشن کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں کہ ہر حلقہ کیلئے بیلٹ پیپرز کے رنگ الگ ہوتے ہیں ۔ان ہی خرابیوں کی وجہ سے متناسب نمائندگی کا طریقہ اپنایا گیا ،اس سلسلہ کا پہلا تجربہ 1856میں ڈنمارک میں ہوا۔1871میں جرمنی نے بھی اس طرف پیش قدمی کی ۔اس وقت دنیا کے 80ممالک میں یہ نظام رائج ہے ۔اس طرح کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوتا ۔پر پارٹی اور ہر نقطہ ¿ نظر کی نمائندگی اسمبلی تک پہنچتی ہے ۔ووٹر کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے ۔اجارہ داریوں اور موروثی سیاست کا خاتمہ ہوتا ہے ۔دھن دھونس ،دھاندلی کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔پارٹیاں بہتر امیدوار دیتی ہیں ۔اسمبلیوں میں ماہرین قانون و معیشت ،نامور علمائے کرام کو بھی نمائندگی مل جاتی ہے ۔الیکشن کے اخراجات کم ہوتے ہیں۔قوم کا سرمایہ اور وقت بھی بچتا ہے ۔
متناسب نمائندگی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ نئی نئی پارٹیاں بنتی ہیںاور علاقائی ،لسانی اور برادریوں کی سیاست کو عروج ملتا ہے ۔وفاقیت کمزور ہوتی ہے اور ناپائیدار مخلوط حکومتیں وجو دمیں آتی ہیںاور اس کےلئے دستور میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔لیکن یہ اعتراضات زیادہ تر لاعلمی پر مبنی ہیں۔متناسب نمائندگی سے سیاسی ادارہ سازی وجود میں آتی ہے ۔صاف ستھری سیاست اور نظریاتی اساس مضبوط ہوتی ہے ۔ایک دو انتخابات کے بعد فرقہ پرستی ،برادری ،لسانی بنیادوں پر بننے والی پارٹیاں ختم ہوجاتی ہیں ۔پاکستان کے 1970کے انتخابات سے دونوں نظاموںکو زیادہ بہترسمجھا جاسکتا ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی نے 61لاکھ 48ہزار ووٹ لئے ،یہ ملک بھر کے ووٹوں کا 18فیصد اور مغربی پاکستان کے ووٹوں کا 38فیصد تھا۔انہیں 81سیٹیں ملیں ۔اگر متناسب نمائندگی کا نظام ہوتا تو انہیں 56سیٹیں ملتیں ۔عوامی لیگ نے ایک کروڑ 29لاکھ ووٹ لئے جو ملک بھر کے ووٹوں کا 38فیصد اور مشرقی پاکستان کے ووٹوں کا 75فیصد تھا ۔اسے 160سیٹیں ملیں ۔متناسب نمائندگی کی صورت میں 100سے بھی کم سیٹیں ہوتیں ۔
جماعت اسلامی کو 19لاکھ 90ہزار ووٹ ملے اور سیٹیں چار ملیں ۔متناسب نمائندگی کی صورت میں سیٹوں کی تعداد 16ہوتی ۔دنیا بھر میں پورا ملک حلقہ ،صوبہ حلقہ ،ضلع حلقہ کے طریقے رائج ہیں ۔اسی طرح پارٹی لسٹ سسٹم ،مکسڈ ممبر سسٹم وغیرہ کے نظام چل رہے ہیں ۔
1970کے الیکشن کے منشور کے لحاظ سے پاکستان پیپلز پارٹی ،جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے منشور میں اس طریق انتخاب کی تائید کی گئی تھی ۔ اب جماعت اسلامی ،پاکستان عوامی تحریک وغیرہ حامی ہیں۔تاہم جاگیر دارانہ طرز سیاست کے خاتمہ کیلئے پہلے مرحلے میں 50فیصد حلقہ جاتی 50فیصد متناسب نمائندگی یا پارٹی ووٹ ،حلقہ کے ووٹ کا ووٹ کے امتزاج کا طریقہ اپنایا جاسکتا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں