ملکی سیاست ایک قومی المیہ

آج کوئی طبقۂ زندگی نہیں جو موجودہ معاشی اور سیاسی حالات سے بری طرح متاثر نہ ہوا ہو۔ کاروباری حضرات رو رہے ہیں۔ عوام میں روز مرہ استعمال کی اشیاء کی خریداری کی سکت نہیں رہی تو کاروبار کیسے چل سکتے ہیں؟ یہ عجیب صورتحال ہے کہ کاروباری طبقہ بھی رو رہا ہے اور لاچار و بے کس عوام بھی لیکن سیاست دان سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو گرانے اور کرسیٔ اقتدار پر جائز ناجائز قبضہ کرنے کی سیاسی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ ایسے گھمسان کے رن میں بھلا عوام کے لئے کون سوچ سکتا ہے؟ پاکستان میں معاشی بدحالی کی جو صورتحال ہے اس کے مظاہر ہم ملک میں تسلسل سے دیکھ رہے ہیں۔ ہر آنے والا دن ملک و قوم کے مسائل و مشکلات کے بڑھنے کی نوید سنا رہا ہے۔ حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود مالی بگاڑ کو سلجھا نہیں پائی لیکن عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنے کی بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمے اور آپریشن کر رہی ہے تاکہ اپنی ساکھ بچا سکے۔ موجودہ سیاسی روش کو دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ لفظ قومی مفاد کو ذاتی مفاد کے لئے اعلانیہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ موجودہ ملکی سیاست کے نمایاں عناصر میں جھوٹ، فریب اور منافقت شامل ہیں۔ جب کہ بہترین جمہوری نظام کے لئے ضروری ہے کہ ہماری سیاست کے نمایاں عناصر میں صداقت، امانت اور دیانت شامل ہوں۔ یہ وہی عناصر ہیں جو قائدِ اعظم کی اس ملک کے حصول کے لئے کی گئی سیاست میں شامل تھے۔ آج کی سیاست میں ان عناصر کا نہ ہونا ایک قومی المیہ ہے۔ ایک اچھے سیاسی نظام کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ اسے جمہوری قدروں کے ذریعے چلایا جائے۔ جن ممالک میں اچھے سیاسی نظام ہیں وہاں پر ہمیشہ جمہوری قدروں کو ہر طرح کے حالات میں مقدم رکھا جاتا ہے اورا س کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔
اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بد سے بد تر ہوتی گئی ہماری سول حکومتوں نے ہی پاکستان کو مارشل لاؤں کے نفاذ اور اسٹیبلشمنٹ کی بالا دستی کی سر زمین بنایا ہے۔ المیہ ہے کہ بڑے بڑے سیاسی انتظامی و آئینی المیے اور ان کے تباہ کن نتائج ہمارے لئے سبق بن سکے نہ ہماری خود غرض حکومتیں اپنی سخت جاں مملکت میں ملی بار بار کی مہلت سے اپنی اصلاح کر سکیں۔ ملکی صورتحال کے اس پس منظر کے ساتھ جڑا سوال یہ ہے کہ ریاستِ پاکستان میں کسی سیاسی قائد یا جماعت کواندازہ ہے کہ دال روٹی کا بھاؤ کہاں پہنچ گیا ہے؟ پاکستان میں سیاست کا محور عوام کے بنیادی مسائل کے حل کی بجائے حصولِ اقتدار ہی رہا ہے اور یوں سیاست ارتقاء پزیر ہونے کی بجائے مسلسل ایک دائرے میں ہی گھوم رہی ہے۔ سیاست دان ہمہ وقت اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ کوئی بھی جائز ناجائز طریقہ اختیار کر کے انتخابات جیت جائیں۔ اس طرح مثبت سیاسی روایات نہ تو پیدا ہوتی ہیں اور نہ ہی سماج آگے بڑھ سکتا ہے۔ آج پاکستان کی بقاء کا تقاضا ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں کیونکہ کسی فردِ واحد یا محض حکمران طبقے کا معاملہ نہیں، پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے لہٰذا ملک اور قوم کے وسیع مفاد میں آپس کی محاذ آرائی چھوڑ کر ملک کو بچانے کی فکر کی جائے اور قومی وقار و بقاء کی خاطر ذاتی مفادات کی قربانی دی جائے۔ فوجی عدم مداخلت کی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھائیں اور مسائل کے حل کے لئے جمہوری طریقہ اختیار کریں۔ صدرِ مملکت عارف علوی نے بھی اسی تناظر میں سیاسی جماعتوں کو مشورہ دیا ہے کہ سیاسی قیادتیں ایک میز پر بیٹھ کر درپیش قومی مسائل کے حل کی راہ ہموار کریں۔
موجودہ حکومت کو سوچنا چاہئے کہ جس طرح سے وہ پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف آپریشن اور مقدمات قائم کر رہے ہیں اس سے ملک میں مزید انتشار پھیلے گا۔ وو قوتیں جو اس ملک میں سیاست دانوں کو لڑا کر جمہوریت کی بساط لپیٹنا چاہتی ہیں وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائیں گی۔ ملکی معیشت آئی سی یو میں پڑی سسک رہی ہے۔ ملک میں گھیراؤ جلاؤ مزید بڑھا تو ملکی معیشت کے تانے بانے بکھر جائیں گے اور اسے سنبھالنا کسی کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ تباہی اور بربادی کے سائے ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے پی ڈی ایم کی قیادت اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ پکڑ دھکڑ سے اس کی مقبولیت مزید کم ہو رہی ہے، بہتر یہی ہے کہ باہمی مشاورت سے انتخابات کی راہ ہموار کی جائے یہ آئینی تقاضا بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی۔اختلافات کی وجہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ نہ تسلیم کرنے سے ابھرتی ہے۔ انتخابات سیاسی اختلافات کے خاتمے کا فطری طریقہ ہوتے ہیں۔ انتخابات کے بعد تمام جماعتوں کو اپنے مینڈیٹ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

ملکی سیاست ایک قومی المیہ” ایک تبصرہ

  1. I see You’re truly a just right webmaster. This site loading pace is incredible. It seems that you’re doing any distinctive trick. Moreover, the contents are masterwork. you’ve performed a wonderful activity in this matter! Similar here: ecommerce and also here: Zakupy online

اپنا تبصرہ بھیجیں