ایک تیر سے دو شکار

ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہماری سیاسی لیڈر شپ ہو یا ہمارے قومی ادارے ان میں باہمی تال میل کا فقدان رہا ہے۔ موقع پر دور اندیشی سے کام نہیں لیا جاتا سب ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں۔ کوئی بھی ذمہ داری اپنے سر پرلینے سے کتراتے ہیں۔ہمیشہ یہی دیکھا گیا کہ کو جونہی کوئی سڑک اللہ اللہ کر کے بنتی ہے کوئی اور محکمہ ترقیاتی کام کے نام پر کدال لے کر پہنچ جاتا ہے۔کسی محکمے سے بچ جائے تو ہم عوام بریکر بنا کر سواستیاناس کر دیتے ہیں۔
ہمارے پاس ایک ادارہ ہے جسے نادرا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگر اس کو سینٹرل پوزیشن پر رکھ کر ہم اپنی پالیسیز تشکیل دیں تو قدرے بہتر حالات ہو جائیں۔ گو کہ اس ادارے میں بھی ہمارے چند نا عاقبت اندیش بھائی بندوں نے ہمارے ہمسایہ ملک کے مہمانوں کو قومی شہریت دے کر ہمارے ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا ہے۔ اصل میں غداری کے مقدمات ان لوگوں پر چلانے چاہئے جنہوں نے اپنے ملک کی پہچان کا سودا چند کوڑیوں کے عوض کیا ایسے لوگ ناسور ہیں۔ اور کوئی رو رعایت کے مستحق نہیں۔ ان لوگوں کے غلط کام کی وجہ سے اب ان پناہ گزینوں کی تیسری نسل ہماری ہر کاروباری مارکیٹ میں براجمان ہے۔ بلکہ وہ سب بڑے بڑے پلازوں کے مالک بن گئے ہیں۔ اتنا پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا۔ کیا وہاں پہاڑوں پر سونا اگتا ہے؟ نہیں بلکہ انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں وہاں سے اسلحہ اور منشیات ہمارے ہاں لے کر آئے ہماری نوجوان نسل کو تباہ کیا گیا اس بلیک منی کو پراپرٹی خرید کر وائیٹ بنا لیا گیا۔اب یہ سب ایک دن میں تو نہیں ہوا شناختی کارڈ بنائے گئے۔ پاسپورٹ بنائے گئے جن اداروں نے اسمگلنگ روکنی تھی۔ ان کی کمزریوں سے فائدہ اٹھایا گیا۔ کوئی ایسی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کہ ان کو کم از کم پراپرٹی خرید کرنے سے ہی روک دیا جاتا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ کوئی بھی ادارہ اس نہج پر نہیں سوچ رہا جیسے یہودیوں نے فلسطین میں زمینیں خرید کر آج فلسطینی مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن کیا ہوا ہے مستقبل کانقشہ ادھر بھی یہی دیکھائی دے رہا ہے۔ تمام بڑے شہروں میں دہشت گردی لاقانونیت کے جتنے بھی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں زیادہ تر میں اسی قومیت کے لوگ سامنے آتے ہیں۔ یہی لوگ ان لوگوں کو اپنے ہاں ٹھراتے ہیں۔بیرون ملک بھی منشیات وغیرہ میں یہی لوگ نظر آتے ہیں۔ ہمارے مہربانوں کی وجہ سے پاسپورٹ پاکستانی بنے ہوئے ہیں۔ بدنامی ہمارے ملک کے حصے میں آتی ہے۔ پاسپورٹ کی قدر نہ ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا غیر قانونی حصول عام ہے۔
مردم شماری میں اگر ان تمام اداروں کی بھی مشاورت شامل کر لی جاتی جو ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ دار ہیں۔ تو کافی حد تک جعلی شناختی کارڈ، قانون کو مطلوب افراد، کی شناخت فوری ممکن تھی۔ ہم مردم شماری سے مردم شناسی کا سفر باخوبی احسن طریقے سے نبھا سکتے تھے۔ ایسے عناصر جو ملک دشمنی میں ملوث تھے۔ ان کو منظر عام پر لایا جا سکتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ نادرا کے پاس جو ریکارڈ وہ انیس سو ساٹھ کے ریکارڈ کے ساتھ تصدیق کرتی تو ایسے تمام لوگوں کا ڈیٹا سامنے آ جاتا جنہوں نے ٹمپرنگ کر کے شناختی کارڈ حاصل کئے تھےکیونکہ پناہ گزینوں کی آمد کا سلسہ اس کے بعد شروع ہوا ہے۔ابھی بھی جب تک ہم ان عناصر کو اپنے ملک سے نہیں نکالیں گے یہ دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں ہماری زندگی اجیرن کئے رکھے گی۔ گھر میں دو مہمان آ جائیں تو ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے ہم تو اسی کی دہائی سے ان لوگوں کو مہمان نوازی سے نواز رہے ہیں۔ پر اس کے بہت برے اثرات ہمارے اقدار پر پڑے ہیں۔ ملک کی معشیت کا ڈانواڈول ہونا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ ڈالر کے اتار چڑھاؤ کا معاملہ ہو اس کا کھرا بھی ہمارے ہمسائے ملک کی طرف ہی جاتا ہے۔ہماری اپنی ملکی ضرویات پوری نہیں ہوتی چہ جائیکہ ہم ہمسایوں کو پالتے جائیں۔ چینی آٹا گوشت غرض کہ تمام ضروریات زندگی کی اشیاء پاکستان کے عوام کے منہ سے چھین کر ان بے وفا بے غرض لوگوں کے پیٹوں میں انڈیلی جا رہی ہیں۔ابھی بھی وقت ہے تمام ادارے مل بیٹھ کے ملکی مفاد میں فیصلہ کریں کہ ان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے جنہوں نے شناختی کارڈ جعلی بنائے وہ کینسل کئے جائیں۔ جنہوں نے شہریت بیچی ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے نادرا کے ادارے کو مزید فلٹرز لگانے کی ضرورت اور اپنے ملازمین پر کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ عوام کے ریکارڈ کو ایسے ہی کسی کے ہاتھ میں نہیں پکڑانا چاہئے بہت سی دشمنیاں اس سے جنم لیں رہی ہیں۔ان پر روک لگانا چاہئے۔مہمان نوازی بہت ہو گئی ہے اور اس کی ہم نے بہت قیمت چکائی ہے اب اس سلسلے کو بند کرنا ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں