بیٹی کی اولاد

سورۃ آل عمران 61
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللہِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ۞
🌻ترجمہ🌻
(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) اس معاملہ میں تمہارے پاس صحیح علم آجانے کے بعد جو آپ سے حجت بازی کرے تو آپ ان سے کہیں کہ آؤ ہم اپنے اپنے بیٹوں، اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر مباہلہ کریں (بارگاہِ خدا میں دعا و التجا کریں) اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔ (یعنی ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو، ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو بلائیں تم اپنے نفسوں کو پھر اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں)۔ ۔
🌹تفسیر🌹
آیہ مباہلہ سے ضمنی طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیٹی کی اولاد کو بھی ”ابن“ (بیٹا) کہا جاتا ہے ۔ زمانہ جاہلیت میں اس کے بر عکس مرسوم تھا کہ صرف بیٹے کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھا جاتا اور کہا جاتا تھا کہ : بنونا بنو ابنائنا وبناتنا بنوھنّ ابناء الرجال الاّ باعد
یعنی ہماری اولاد تو فقط ہمارے پوتے ہیں رہے ہمارے نواسے تو وہ دوسروں کی اولاد ہیں نہ کہ ہماری ۔ بیٹیوں اور عورتوں کو انسانی معاشرے کا حقیقی حصّہ نہ سمجھنے کی طرز فکر بھی اسی غلط سنّتِ جاہلیت کی پیدا وار تھی ۔ وہ عورتوں کو اپنی اولاد کی نگہداری کے لئے فقط ظرف سمجھتے تھے ۔
جیسا کہ ان کے شاعر نے کہا ہے : و انّما امّھات الناس اوعیة مستودعات و للانساب آباء ۔ یعنی لوگوں کی مائیں ان کی پرورش کے لئے ظرف کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اورنسب کے لئے تو صرف باپ ہی پہچانے جاتے ہیں ۔ اسلام نے اس طرز فکر کی شدید نفی کی اور اولاد کے احکام پوتوں اور نواسوں پر ایک ہی طرح سے جاری کئے ۔ سورہ انعام آیہ ۸۴ اور ۸۵ میں حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی اولاد کے بارے میں ہے : ”ومن ذرّیّتہ داود و سلیمان و ایّوب و یوسف و موسیٰ و ھارون و کذالک نجزی المحسنین و زکریا و یحییٰ و عیسیٰ و الیاس کلّ من الصالحین “۔ “اور اولاد ابراہیمؑ میں سے داوٴدؑ ، سلیمانؑ ، ایوبؑ ، یوسفؑ، موسیٰؑ اور ہارون تھے اور اس طرح ہم نیک لوگوں کو جزاء دیتے ہیں ، نیز زکریاؑ ، یحییٰؑ اور عیسیٰ (علیه السلام)( بھی تھے ) جو سب کے سب صالحین میں سے تھے ۔” اس آیت میں حضرت عیسیٰ (علیه السلام) کو حضرت ابراہیم (علیه السلام) کی اولاد میں سے شمار کیا گیا ہے حالانکہ وہ بیٹی کی اولاد تھے اور جو شیعہ سنّی روایات امام حسن (علیه السلام) اور امام حسین (علیه السلام) کے بارے میں مذکور ہیں ان میں بارہا ”ابن رسول اللہ “ ( فرزند رسول ) کا لفظ ان کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ وہ آیات جن میں ایسی عوتوں کا ذکر ہے جن سے نکاح حرام ہے ان کے لئے فرمایا گیا ہے : ”وحلائل ابنائکم ۔یعنی ….تمہارے بیٹوں کی بیویاں ۔فقہائے اسلام کے درمیان یہ مسئلہ مسلم ہے کہ بیٹوں، پوتوں اور نواسوں کی بیویاں انسان پر حرام ہیں اور وہ سب مندرجہ بالا آیت میں داخل ہیں ۔

بیٹی کی اولاد” ایک تبصرہ

  1. Wow, amazing weblog format! How long have you been blogging for? you make blogging glance easy. The overall look of your site is excellent, let alone the content material! You can see similar here sklep online

اپنا تبصرہ بھیجیں