سیانوں کی کہانی

خان صاحب نے یہ کیوں سمجھ لیا ہے جو ان کے ذہن میں خفیہ سکیمیں ہر لحمے چلتی رہتی ہیں وہ اگر فورا اس پر عمل کر گزریں تو سب نتائج ان کی مرضی کے ہی نکلیں گے؟
پچھلے ایک سال میں انہوں نے جتنے فیصلے یہ ذہن میں رکھ کر کیے کہ ان کا سارا فائدہ انہیں اور نقصان مخالفین کو ہوگا ان میں سے ایک بھی اب تک ان کو فائدہ نہیں دے سکا۔ آپ فورا کہیں گے ان کا ووٹ بنک بڑھ گیا۔لوگوں میں موجودہ حکمرانوں کے لیے نفرت بڑھ گئی۔
عوام پر نہ رہیں۔ عوامی رائے مستقل نہیں ہوتی۔ یہ بدلتی رہتی ہے۔ پچھلے سال انہی دنوں میں پی ٹی آئی کے وزیر ٹی وی شوز میں جانے سے گھبراتے تھے۔ لوگ ہمیں صلواتیں سناتے تھے کہ آپ لوگوں نے عمران خان پر ہاتھ کیوں ہولا رکھا ہوا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا اس عوام نے جب عمران خان وزیراعظم تھے تو درجن بھر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی امیدواروں کو شکست دی تھی۔ سب الیکشن پی ٹی آئی ہار گئی تھی۔ شاید ایک آدھ جیتا ہوگا۔ ڈسکہ کا الیکشن جس طرح جیتنے کی کوشش کی گئی وہ سب کو یاد ہوگی۔
بلاشبہ خان صاحب بہت مقبول ہیں لیکن ووٹ بنک کا فائدہ اس وقت ہے جب الیکشن ہوں۔ جمہوریت یا سیاست لمبی ریس کا گھوڑا ہے۔ صبر اور تحمل کا کھیل ہے۔
آپ نے کیوں یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ کے مخالفیں آپ کے پسندیدہ وقت، پسندیدہ میدان اور پسندیدہ دن پر آپ سے جنگ لڑیں گے اور اس جنگ میں تمام تر قانونی، آئینی اخلاقیات پر چلیں گے؟ آپ کہیں گے یہ آئینی ضرورت ہے۔ بالکل ہے۔

لیکن آپ زیادہ جذباتی نہ ہوں تو عرض کروں۔
ہمارے جیسے تھرڈ ورلڈ ملکوں میں آئین پر نہ سیاستدان یقین رکھتے ہیں نہ ہی حکمران۔ یہ سارے آئین ہم نے مغربی دنیا سے کاپی پیسٹ کیے ہوئے ہیں جن کے نہ ہمیں معنی آتے ہیں نہ ہی ہم اس جدوجہد سے گزرے ہیں جس سے مغربی معاشرے گزرے اور ایک ایک لفظ کو مقدس جان کر وہ آئین لکھے گئے۔

ویسے پنجاب میں الیکشن کرا ہی لیتے تو کیا فرق پڑتا— جہاں ستیاناس وہاں سوا ستیا ناس۔مال پانی پہلے بھی کھایا پیا جارہا تھا۔ اب بھی نئے الیکشن بعد بھی کھایا پیا جاتا۔ کسر شریف فیملی اور ان کے حواریوں نے بھی اپنے دور میں نہیں چھوڑی تھی تو رعایت بزدار اور گوگی گینگ نے بھی نہیں کی۔ چوہدریوں نے تو اپنے چھ ماہ میں آخیر کر دی تھی۔

میرا ماننا ہے لوگوں کو اپنی اپنی پسند کے لیٹرے چاہئے ہوتے ہیں آپ انہیں دے دیں تاکہ وہ سکون سے لٹ سکیں۔تکلیف عوام کو اس وقت ہوتی ہے جب وہ لٹ بھی رہے ہوں اور لیڑے بھی انہیں پسند نہ ہوں۔

میرے خیال میں تو عمران خان صاحب کو ایک اور موقع اقتدار میں دیں گے تو ہی وہ سیاسی طور پر ختم ہوں گے۔ لوگوں کو اپنی آنکھوں سے ایک دفعہ پھر عمران خان اور ان کی ٹیم کی قابلیت کے مظاہرے دیکھنے دیں پھر ہی ان کا دل بھرے گا۔
پچیس سال اسلام آباد رپورٹنگ کی ہے اور ان سیاسی حکمرانواں کو قریب سے دیکھا اور سمجھا ہے۔
میرا خیال ہے خان جب بھی دوبارہ اقتدار میں آیا وہ چھ ماہ کے اندر اندر انہی ایشوز اور عوامی غصہ فیس کررہا ہوگا جو ابھی پی ڈی ایم اپنی حماقتوں اور نالائقی سے کررہی ہے۔ پچھلے سال انہی دنوں میں پی ڈی ایم والے دو تین ماہ رک جاتے تو خان صاحب کے لیے جون گزارنا مشکل تھا اور خان صاحب کہیں دور بیٹھے اپنے سیاسی زخم چاٹ رہے ہوتے۔
ی
زرداری اور شریف بھی خود کو ڈیرہ سیانا سمجھتے تھے تو خان صاحب خیر سے خود کو ڈبل سیانا سمجھتے ہیں۔ دونوں کی سمجھداری کے نتائج آپ خود دیکھ لیں۔ شریفوں اور زرداری کا خیال تھا وہ عمران خان کو ہٹا کر قوم پر احسان کررہے ہیں۔قوم انہیں شکرانے کے طور پر سجدے کرے گی۔اب قوم ان کی شکل دیکھنے کو تیار نہیں ہے۔
خان صاحب تو ان سے ویسے بھی زیادہ سیانے تھے۔ کیونکہ بقول ان کے وہ دنیا کو سب سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔پہلے قومی اسمبلی توڑی، پھر اسمبلی سے استحفی دیے، پھر پنجاب اور خیبر پختون خواہ حکومتیں توڑیں یہ سوچ کر بس اب سب کچھ میرے ہاتھ میں ہے۔
ویسے مزے کی بات ہے خان نے پچیس سال قوم کو یقین دلایا تھا کہ وہ زرداری اور شریفوں کو نہیں چھوڑیں گے۔وہ قوم کا تحفظ کریں گے۔ آج کل وہی قوم ڈنڈے پکڑے زمان پارک کے باہر خان صاحب کا تحفظ کررہی ہے کہ کہیں ہمارے لاڈلے خان کو زرداری اور شریف اٹھا کر نہ لے جائیں۔
جس مظلوم قوم کو خان نے ان دو بڑے ظالموں سے بچانا تھا وہی قوم اب اپنے خان کو بچانے پر لگی ہوئی ہے اور خان صاحب زمان پارک کے اندر مورچہ بند ہو کر بیٹھے روز دہائی دے رہے ہیں—کہ مجھے ان ظالموں سے بچائو۔

2 تبصرے “سیانوں کی کہانی

  1. I see You’re truly a just right webmaster. The web site loading velocity is incredible. It sort of feels that you are doing any distinctive trick. Moreover, the contents are masterwork. you’ve done a wonderful task on this subject! Similar here: e-commerce and also here: Dyskont online

اپنا تبصرہ بھیجیں