نازک ترین اقتصادی صورت حال

سید عارف نوناری
پاکستان کی اقتصادی کیفیت نازک ترین صورت حال کا پتہ دےرہی ہے، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے سرکاری ڈھانچہ بھی متاثر ہوا ہے اورریاست کے اہم ادارے بھی فعال کردار ادا نہیں کر پا رہے۔ ساتھ ساتھ معاشرے کے بہت سے طبقات اس سوچ میں ہیں کہ کب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ان کے کاروبار بہتر ہونا شروع ہوں گے؟ پاکستانی عوام میں اس وقت کئی سوالات گردش کر رہے ہیں،ان حالات میںاقتصادی ادارے ورلڈ اکنامک فورم کی ایک پریشان کن رپورٹ میں 2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔پاکستان کو ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا ہے، اگلے دو سال تک پاکستان کو خوراک کی کمی،سائبر سکیورٹی، مہنگائی اور معاشی بحران کے خطرات درپیش ہوں گے۔علاوہ ازیں،ملک کو عدم استحکام کےعلاوہ خوراک اور قرضوں کے بحران کا سامنا ہے،خطے کے ممالک آبی وسائل کو علاقائی تنازعات میں بطور ہتھیار بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں سیلاب سے 8 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی تباہ ہوئی، اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے ۔ ماضی میں ڈیفالٹ کا سامنا کرنے والے دیگر ممالک میں ارجنٹائن، تیونس، گھانا، کینیا، مصر اور ترکیہ شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کے ہنگامی قرضوں کے ریکارڈ اجراکے باوجود 54 سے زائد ممالک کو قرضوں کی ضرورت ہے،کچھ ترقی یافتہ ممالک ملکی ضروریات میں اضافے اورمالی دباؤ کے سبب رعایتی بنیاد پر قرض دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ادارے کی یہ رپورٹ پاکستان میں ایک اہم ایشو کی نشاندہی کرتی ہے، پاکستان امداد اور قرضوں کے سہارے زندہ ہے اور قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ آئندہ کئی نسلیں اس کو اتارنے میں لگی رہیں گی۔ پاکستان نہ تو ایک غریب ملک ہے اور نہ اسے وسائل کی کمی کا سامنا ہے، کمی ہے تو مخلص لیڈر شپ کی ۔ اقوام سوچ سے ہی بنتی اور سوچ سے ہی بگڑتی ہیں۔ ملکی سوچ سے انفرادی سوچ ترقی کرتی ہے۔ ملک کے تمام شعبے جمود کا شکار ہیں۔ ترقی کا عمل رُک گیا ہے، انڈسٹری تباہ ہو گئی ہے ، سوال یہ ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے، ہمیں تمام تر توانائیاں صرف کر کے ملک کو اوپر لیکر جانا ہے۔ ملک میں کرپشن اور اقربا پروری کو دور کرنا ہے، کرپشن سے ملک کی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں اور معاشرہ اس برائی کو برا محسوس نہیں کرتا بلکہ اس کی روک تھام کے حوالے سے خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔
سر ی لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے جو بدترین صورت حال سے دو چار ہے اور بدترین معاشی بحران کے شکار ملک سری لنکا نےاخراجات کم کرنے کے لئے فوج کی تعداد میں ایک تہائی کمی کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے ۔ سری لنکا اگلے سال تک اپنی فوج میں ایک تہائی کمی کرلے گا، یوں اس کی تعداد ایک لاکھ 35 ہزار اور 2030 تک ایک لاکھ ہوجائے گی۔ فوج میں کمی کے اقدام کا مقصد 2030 تک تکنیکی اور حکمت عملی کے لحاظ سے متوازن دفاعی قوت بننا ہے۔عالمی بینک کے اعدادو شمار کے مطابق سری لنکا میں 2017 سے 2019 کے درمیان فوج میں تین لاکھ 17 ہزار اہلکار شامل تھے۔ملک دیوالیہ ہونے سے اس کی بنیادیں کمزور ہو جاتی ہیں، افواج کا کردار محدود کر دینا چاہیے اور سیاسی پارٹیوں کو جمہوری طریقے سے اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ریاست کے ہر ادارے کے اپنے فرائض اور اپنی اپنی حدود ہیں جو آئین نےمقرر کر دی ہیں۔ آئین کی پاسداری ہر ریاستی ادارے پر فرض ہے۔ ملک اقتصادی صورت حال کے نازک مراحل میں داخل ہو چکا ہے اور معاشرے کے ہر فرد کو ایسے حالات میں مثبت کردار اور سوچ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کا تقرر بھی متنازعہ بن گیا ہے، اب جب کہ دو صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں اور انتخابات کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں تو ایسے حالات میں پاکستانی عوام کو سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہے اور ملک کے اقتصادی حالات بھی عوام کے سامنے ہیں، یہ ان کے لیے کڑا امتحان ہے کہ انہوں نے مشکل زندگی کے جو ایام گزارے ہیں اور گزار رہے ہیں۔ لوگ بھوک کی وجہ سے خود کشیاں بھی کر رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جو رپورٹ سامنے آئی ہے وہ بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ بد ترین اقتصادی صورت حال سے ہمیں چھٹکارا کیسے حاصل کرنا ہے اور ملکی اقتصادیات کی بہتری کے لیے کیا کیا اقدامات کرنے ہیں؟ اس حوالے سے منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے، اخراجات کو کم کیسے کرنا ہے اور آمدن میں اضافہ کیسے کرنا ہے، اس حوالے سے سوچنا بھی ہے اور عمل درآمد بھی کرنا ہے۔

نازک ترین اقتصادی صورت حال” ایک تبصرہ

  1. You are truly a just right webmaster. This web site loading pace is amazing. It sort of feels that you are doing any unique trick. Moreover, the contents are masterwork. you have performed a magnificent activity on this subject! Similar here: novarique.top and also here: Dyskont online

اپنا تبصرہ بھیجیں