انتخابی منشور 2023ء پر ایک نظر

تحریر: لیاقت بلوچ

نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان

عوامی مسائل کا درست اور گہرا ادراک اور اِن مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اور قابلِ عمل پروگرام رکھنے والی جماعت ہی عوام کے د ±کھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔ کسی سیاسی جماعت کا انتخابی منشور دراصل ا ±س جماعت کا عوامی مسائل کے ادراک سے متعلق ایک آئینہ ہوتا ہے، جس میں وہ تصویر بالکل واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے جس کے بل بوتے پر کوئی سیاسی جماعت عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے میدانِ سیاست میں ا ±ترتی ہے۔منشور دراصل ایک ایسی بنیادی دستاویز ہوتی ہے جو سیاسی جماعتیں عمومی طور پر انتخابات سے قبل جاری کرتی ہیں اور دنیا بھر میں ووٹرز اِس کی بنیاد پر کسی سیاسی جماعت کو ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کسی بھی سیاسی جماعت کی مقبولیت اور جیت میں اس کے انتخابی منشور کا کردار کلیدی ہوتا ہے تاہم پاکستان میں منشور کو رسمی کارروائی یا کتابچے سے زیادہ اہمیت حاصل نہیں۔
عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے اِن روایتی سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ عوام کے سامنے ایک ایسا منشور رکھا جو بظاہر تو عوامی توقعات و خواہشات کا آئینہ دار تھا، لیکن درحقیقت خیالی، پ ±رفریب اور خوش ک ±ن وعدوں پر مشتمل ایک ایسی دستاویز ثابت ہوئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ عوام کو سبزباغ دکھاکر اور جھوٹے وعدوں پر ورغلاکر محض خانہ پ ±ری کے لیے پیش کردہ اِن منشوروں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج عوام ظلم، مہنگائی، ناانصافی، لاقانونیت، بدترین سیاسی، آئینی، معاشی بحرانوں اور قرضوں و س ±ود کی ایسی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں جن سے نکلنا اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔
قومی سیاسی منظر نامے کی اس اندھیر نگری چوپٹ راج میں قومی عوامی سوچ اور ا ±منگوں کی حقیقی ترجمانی کرتی اگر کوئی جماعت اس وقت ملکی سیاست کے ا ±فق پر بھرپور انداز میں مصروفِ عمل نظر آتی ہے تو وہ الحمد ±للہ! جماعتِ اسلامی پاکستان ہی ہے، جو ہمہ وقت دامے درمے س ±خنے عوامی مسائل اور قومی ترجیحات کے حوالے سے نہ صرف ایک واضح وڑن اور دوٹوک منصوبہ عمل رکھتی ہے بلکہ اس پر عملدرآمد کے لیے ایک باصلاحیت، باکردار، دیانت دار اور ہر قسم کی کرپشن سے پاک بے داغ قیادت اور ٹیم بھی رکھتی ہے۔
22 مارچ 2023ءکو امیر جماعتِ اسلامی پاکستان جناب سراج الحق نے دیگر اکابرینِ جماعت اور سیاسی، صحافتی، سول سوسائٹی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات، خواتین و حضرات کی موجودگی میں لاہور کے مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی پاکستان کا عوامی، فلاحی، انقلابی منشور پیش کیا۔ اسلامی، جمہوری، فلاحی ریاست کا قیام جماعتِ اسلامی کا روزِ اول سے ہی مطالبہ اور منصوبہ رہا ہے۔ اِسی لیے 22 مارچ 2023ءکو پیش کردہ انتخابی منشور میں بھی ملک کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری، خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کے لیے دستورِ پاکستان کے تقاضوں کے مطابق ملک میں قرآن وسنت کی بالادستی قائم کرنے اور قرآن و سنت سے متصادم تمام قوانین منسوخ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔
اسلام، آئین،جمہوریت اور سِول حکومت کے تحفظ کے لئے پارلیمنٹ کو بالادست بنایا جائے گا۔ پارلیمنٹیرینز /قانون سازوں (Legislators) کی استعداد کار بڑھانے (Capacity Building) کے لیے ایک ”تربیتی اکیڈمی“ قائم کی جائے گی۔ تمام بین الاقوامی معاہدوں کی حتمی منظوری پارلیمنٹ دے گی۔منشور میں مضبوط معیشت اور گورننس کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ منشور کے مطابق سیاسی جماعتوں ، ماہرینِ معاشیات اور تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ”میثاقِ معیشت“ تیار کیا جائے گا۔ س ±ودی معیشت اور س ±ودی بنکاری کا خاتمہ کیا جائے گا۔ عالمی بنک ،عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اوراندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات کے لئے جامع حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان ایکٹ پرنظرثانی کر کے گورنربنک دولت پاکستان کو پارلیمنٹ اور حکومت کے سامنے جوابدہ بنایاجائے گا۔ سروسز چیفس کی تقرری سینیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پر ہو گی اور اِس کی منظوری بھی پارلیمان ہی سے لی جائے گی، جبکہ قومی سلامتی پالیسی تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کر لینے کے بعد پارلیمنٹ سے منظور کرائی جائے گی۔ غیر ترقیاتی اخراجات میں 30 فیصد کمی کی جائے گی۔ موجودہ اور سابق صدور، وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزرائ ، سپیکر قومی و صوبائی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس سپریم کورٹ و ہائی کورٹس کے حاضر سروس ججز، اعلیٰ سول اور فوجی افسران کو حاصل قیمتی لگثری سرکاری گاڑیوں اور مفت پٹرول کی سہولت ختم کی جائے گی۔ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ما لدار ترین اشرافیہ کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کر کے 200 ارب روپے سالانہ کی بچت یقینی بنائی جائے گی۔
آئین کے مطابق بلاامتیاز اور بے لاگ احتساب کے لیے مو ¿ثر احتسابی نظام قائم کیا جائے گا جس کا بنیادی مقصد رشوت ، کمیشن اور کِک بیکس سمیت ہر قسم کی بدعنوانی کا مکمل خاتمہ ہوگا۔ گورننس میں بہتری لانے کے لیے تفتیشی اداروں کی تنظیم نو کے ساتھ ساتھ ایک نیا احتسابی نظام تشکیل دیا جائے گا، پلی بارگین کا خاتمہ کر دیا جائے گا، بدعنوان عناصر کو شریعت کے مطابق موت اور عمر قید سمیت سخت سزائیں دی جائیں گی۔
زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان کا آٹا، چاول، دالوں اور دیگر زرعی پیداوار کی شدید قلت اور ناقابلِ برداشت مہنگائی کا شکار ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ منشور میں زراعت کی ترقی اور کسانوں کی فلاح و بہبود پر مشتمل انقلابی پروگرام پیش کیا ۔منشور کے مطابق اقلیتوں کے لیے ”پاکستانی برادری“ کی اصطلاح متعارف کرائی جائے گی۔ نیز غیرمسلموں کو بلاامتیاز تعلیم، روزگار، صحت سمیت دیگر مساویانہ شہری حقوق کی فراہمی سمیت تمام مذاہب کے پیروکاروں کی جان، مال، عزت، آبرو اور عبادت گاہوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔
جماعت ِ اسلامی کے منشور کا بنیادی مقصد پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی، جمہوری، خوشحال اور ترقی یافتہ ریاست بنانا ہے۔ ملک و قوم کی تقدیر بدلنی ہے تو اپنے ووٹ کی طاقت کو ترازو نشان کے حق میں استعمال کرنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں