مردم شماری اور سندھ کے تحفظات

پاکستان میں مردم شماری کا آغاز ہوچکا ہے جو کہ سندھ کے اسٹیک ہولڈر نے تقریبا مسترد کردیا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مہیا کیے گئے فارم میں قومیت کا کالم نہیں ہے جس سے شکوک و شہبات جنم لے چکے ہیں۔
حکومت کو ہی نہیں سندھ میں بسنے والے ہر شخص کو اس مردم شماری پر شدید اعتراضات ہیں کیوں کہ سیلاب کی وجہ سے چند اضلاع کے لوگ تو بالکل در بدر ہیں کچھ اس وقت سندھ پنجاب کے باڈر پر بھی ہیں
اور کچھ بلوچستان کے چند قریبی اضلاع میں پناہ گزین ہیں اور ایک بڑی تعداد کراچی میں قائم ٹینٹ سٹی میں بھی موجود ہے،کیوں کہ سیلاب کا پانی ابھی تک زمینوں پر کھڑا ہے اور جہاں سے اترا ہے
وہاں زندگی کے تمام آثار ختم کر کے اترا ہے لہذا لوگوں کے پاس رہنے کو چھت نہیں ہے اور اس وجہ سے جو جہاں گیا وہاں ابھی تک مقیم ہےہونا تو یہ چاہئے کہ ڈجیٹل مردم شماری پر وفاق سندھ حکومت کے تحفظات دور کرے
تاکہ یہ مردم شماری کی مشق ضائع نہ ہو کیوں کہ یہ مشق پاکستانی قوم کے ٹیکس میں دیے گئے پیسوں سے سرانجام پارہی ہے۔
صوبہ کا ایک ایک شخص گنا جائے، ہر خاندان کے سربراہ کو پتہ ہو کہ اگر اس نے اپنے خاندان کے 10 افراد لکھوائے ہیں تو وہ ڈیٹا میں شامل ہیں ، ڈجیٹل مردم شماری میں غیر قانونی طور بسنے والے لوگوں کو الگ گنا جائے
تاکہ درست اعداد سامنے آئیں کہ سندھ میں کتنے لوگ رہتے ہیں اور کتنے وسائل استعمال کر رہے ہیں اور بنیادی طور پر وہ کہاں سے آکر بسے ہیں، سندھ پاکستان کا دل ہے یہاں ہر قوم آباد ہے، یہاں ہر زبان بولی جاتی ہے، سندھ میں سندھی ﺑﻮﻟﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ 5 اقسام ہیں، ﺍﯾﮏ ﺗﻮ “ﺳﻤﺎﭦ” ﺳﻨﺪﮬﯽ ہیں۔ ﺟﻮ اصل سندھ کے باسی اور وارث ہیں۔ ﯾﮧ اصل میں ہندﻭ تھے ﯾﺎ ہندو ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮬﻮگئے۔دوسرے “ﻋﺮﺑﯽ ﺑﯿﮏ ﮔرﺍﺅﻧﮉ ﺳﻨﺪﮬﯽ” ﻋﺒﺎﺳﯽ ‘ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ‘ ﮔﯿﻼﻧﯽ ‘ ﺟﯿﻼﻧﯽ ‘ ﻗﺮﯾﺸﯽ ‘ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﻭﻏﯿﺮﮦ ہیں۔ جنہوں ﻧﮯ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻗﺎﺳﻢ ﮐﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﮯ ﻋﺮﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﭘﺮ ﻗﺒﻀﮯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻭﻗﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺮﺍﻥ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﺁﮐﺮ ﺁﺳﺘﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﺭ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺁﺑﺎﺩ ہوﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺮﯼ ﻣﺮﯾﺪﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﯾﺎ ﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ہوﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ کیا۔ اور چونکہ اسلام پر ان لوگوں کی مکمل گرفت تھی، اور دین کی اہمیت سے واقف تھے، لہذا معاشرے میں جلد ان لوگوں نے اہم مقام بنا لیا، ۔
تیسرے “ﺑﻠﻮﭺ ﺑﯿﮏ ﮔرﺍﺅﻧﮉ ﺳﻨﺪﮬﯽ” ہیں۔ ﺟﻮ بلوچ قبیلے تالپوروں ﮐﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻨﺪﮪ ﺁﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ہوئے ﺍﻭﺭ یہاں حکومت بنانے کے بعد ان کی تعداد بڑھتی گئی اور پھر یہ لوگ اسی دھرتی کے ہوکر رہے گئے۔ ﯾﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻠﻮﭼﯽ ﯾﺎ ﺳﺮﺍﺋﯿﮑﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﺎہر سندھی ہی ﺑﻮﻟﺘﮯ ہیں ﺍﻭﺭ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺑﻠﻮﭺ ﺿﺮﻭﺭ کہلواتے ہیں لیکن قومیت کے خانے میں سندھی لکھے جاتے ہیں۔ اور پاکستان کے سب سے اہم رہنما آصف علی ذرداری بھی بلوچ ہیں اور اپنے بلوچ ہونے پر انھیں فخر ہے لیکن یہ قبیلہ بھی اپنے آپ کو سندھی کہلاواتا ہے ، چوتھے “ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ ﺑﯿﮏ ﮔرﺍﺅﻧﮉ ﺳﻨﺪﮬﯽ” ﺍﺭﺍﺋﯿﮟ ‘ ﺟﺎﭦ ‘ ﺭﺍﺟﭙﻮﺕ، چودھری، ملک، جاٹ وغیرہ ہیں ﺟﻮ 1901ء میں نارا کینال ﺍﻭﺭ 1932ء ﻣﯿﮟ سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت آ ﮐﺮ ﺳﻨﺪﮪ ﻣﯿﮟ ﺁﺑﺎﺩ ہوئے
اور غیر آباد زمین کو خرید کر آباد کیا، نواب شاہ، خیرپور، سکھر، سانگھڑ، بدین میں یہ لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں، ﺳﻨﺪﮪ ﮐﯽ ﺛﻘﺎﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﺭﺳﻢ ﺭﻭﺍﺝ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺏ یہ ﺳﻨﺪﮬﯽ ہی کہلواتے ہیں، مگر آج بھی گھروں پر یہ پنجابی ہی بولتے ہیں مگر سندھی پر نہ صرف انھیں مکمل عبور ہے بلکہ سندھی ثقافت ہی ان کی شناخت ہے، پانچویں “ﭘﻨﺠﺎﺑﯽ سرائیکی ﺑﯿﮏ ﮔرﺍﺅﻧﮉ ﺳﻨﺪﮬﯽ” بھٹو ‘ بھٹی ‘ مہر ‘ کلیار ‘ کچھیلا ‘ کھرل ‘ سیال ‘ کھوکھر ‘ چاچڑ وغیرہ ہیں۔ جو انگریز دور سے بھی بہت پہلے سے سندھ میں رہ رہے ہیں اور اب تو گھر میں اور آپس میں بھی سندھی ہی بولتے ہیں یہ مکمل تور پر سندھی ہیں، گھر پر بھی سندھی بولتے ہیں اور سندھ ہی ان کی شناخت ہے۔ اور ان سے بھی میری گذارش ہے کہ آپ اپنی قومیت کے خانے میں سندھی لکھوائیں۔
دیہی سندھ میں رہنے والے سماٹ سندھیوں ‘ پنجابی بیک گراؤنڈ سندھیوں ‘ عربی بیک گراؤنڈ سندھیوں اور بلوچ بیک گراؤنڈ سندھیوں کا آپس میں بزنس اور سماجی تعلق بہت گہرا ہے ایک دوسرے کے غم میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ لیکن دیہی سندھ پر اس وقت سماٹ سندھیوں اور پنجابی بیک گراؤنڈ سندھیوں کے مقابلے میں عربی بیک گراؤنڈ سندھیوں اور بلوچ بیک گراؤنڈ سندھیوں کی سماجی ‘ معاشی اور سیاسی بالادستی ہے، شہری سندھ کے علاقے ‘ کراچی میں پنجابی ‘ پٹھان ‘ راجستھانی ‘ گجراتی ‘ بہاری ، یوپی والے اور سی پی والے رہتے ھیں۔ جو خود کو سندھی نہیں کہلواتے، جبکہ ان کو بھی اس دھرتی کا حلالی بیٹا بن کر اپنے آپ کو سندھی کہلواوانا چاہیے۔ کچھ لوگ پاکستان کے مختلف علاقوں سے سندھ میں روزگار کی تلاش میں آتےاور زندگی کا آخری سال اپنی سر زمین پر جا کر بسر کرتے ہیں، ہاں یہاں 1950 سے 1970 تک آئے پنجابی اور پٹھان یہاں ہی دفن ہونا پسند کرتے ہیں
لیکن وہ اپنے آپ کو سندھی نہیں کہلاواتے ان سے بھی گذارش ہے کہ جب آپ کا قبرستان یہاں ہے تو آپ اپنے آپ کو سندھی کہلوانے میں کیوں جھجک محسوس کرتے ہیں لیکن شہری سندھ پر اس وقت پنجابیوں ‘ پٹھانوں ‘ راجستھانیوں ‘ گجراتیوں ‘ بہاریوں کے مقابلے میں یوپی والوں اور سی پی والوں کی سماجی ‘ معاشی اور سیاسی بالادستی ہے، ہندوستان سے آئے ہوئے لوگ یہاں شہری سندھ میں ہر شعبہ زندگی میں اپنی چھاپ رکھتے ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری میں کوئی ایسا خانہ موجود ہے کہ جس میں لکھا ہوا ہو کہ آپ کا تعلق کس صوبے سے ہے اور ساتھ میری یوپی سی پی اور ہندوستانی سے ہجرت کر کے سندھ میں بسنے والوں سے بھی گذارش ہے کہ آپ بھی اپنی قومیت کے خانے میں سندھی لکھوا کر سندھی کے حلالی فرزند ہونے کا ثبوت دیں۔
ساتھ اگر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جو سندھ میں رہیے رہے ہیں انھیں پابند کیا جائے کہ وہ اپنی مادری زبان کے خانے پر لکھیں کہ وہ کونسی زبان بولتے ہیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ سندھ میں اس وقت دیگر زبانیں بولنے والے کتنے لوگ ہیں، ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ یہاں بسنے والے افغانوں کو پاکستان کے پختونوں سے الگ لکھا جائے تاکہ اندازہ ہو سکھے کہ اس صوبے کے کتنے وسائل افغانیوں پر خرچ ہورہے ہیں اور آخر میں یہ گذارش کروں گا کہ اس مردم شماری کے خدشات ختم نہ ہوئے تو صوبے سندھی کی عوام اس کو رد کردے گی جس کا خمیازہ بھگتنا آسان نہیں ہوگا۔

مردم شماری اور سندھ کے تحفظات” ایک تبصرہ

  1. Wow, wonderful blog layout! How long have you ever been running a blog for? you made blogging glance easy. The total look of your web site is excellent, let alone the content! You can see similar here sklep internetowy

اپنا تبصرہ بھیجیں