معیشت کی تباہ حالی: وجوہات اور نکلنے کا راستہ

آج ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے۔ س±ود اور قرضوں کی بنیاد پر قائم معیشت کبھی ترقی نہیں کرسکتی، سوشلزم اور کمیونزم کی ناکامی کے بعد سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کی کشتی بھی د±نیا بھر میں ہچکولے کھارہی ہے اور ڈوبنے کے قریب ہے۔ عالمی کساد بازاری نے د±نیا بھر کی معیشتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ پاکستان اور د±نیا بھر میں معاشی، سیاسی سمیت تمام بحرانوں کا حل اسلامی نظامِ معیشت، معاشرت و حکومت میں ہے۔ جتنی جلد ہمارا حکمران طبقہ اس بات کا ادراک کرلے، اتنی ہی جلد ہم بحیثیت قوم سنبھلنے اور ترقی و استحکام کی منازل طے کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
پاکستان کی گزشتہ 75 سالہ تاریخ سے ثابت ہے کہ حکمرانوں نے ملک و قوم کے مفاد کی بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ترجیح دی اور پاکستان کو معاشی بحران کے ایسے گرداب میں دھکیل دیا جس سے نکلنا آسان بات نہیں۔ آئی ایم ایف اور دوست ممالک جیسا کہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کا سہارا ڈوبتی ہوئی معیشت کو چند سانسیں تو فراہم کرسکتا ہے لیکن اس سے دیرپا معاشی استحکام ممکن نہیں۔ ملک و قوم کو موجودہ معاشی گرداب سے نکالنے کے لیے صحیح معنوں میں ٹھوس اور مستحکم بنیادوں پر پائیدار معیشت کی تعمیرکرنا ہوگی، جو صرف اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ وفاقی شرعی عدالت پہلے ہی اس حوالے سے اپنے تاریخٰ فیصلے میں حکومت کو سال 2027ءتک بنکاری نظام کو س±ود سے مکمل پاک کرنے کی ڈیڈ لائن دے چکی ہے، جس پر سنجیدہ عملدرآمد وقت کا تقاضا ہے۔تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، برآمدات میں کمی، افراط زر کی شرح میں اضافہ، بڑھتے ہوئے مالیاتی اورکرنٹ اکاﺅنٹ خسارے کے باعث اب یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے پر اور خدانخواستہ ڈیفالٹ کے قریب ہے۔ اپوزیشن کیساتھ ساتھ اب تو خود حکومت بھی یہ حقیقت تسلیم کررہی ہے کہ ملکی اقتصادی نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ دوست ممالک کی طرف سے امداد اور دیپازٹس خوش آئند اور ا±ن کی پاکستان دوستی کا عملی ثبوت ہے، جس کے لیے پوری پاکستانی قوم ان کی شکر گزار ہے، لیکن دوسری طرف حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں سے توبہ کرنے اور سرکاری اداروں میں اصلاحات کرکے غیرترقیاتی اخراجات کا بوجھ کم کرنے کی بجائے جب سونے کا کشکول لے کر بیرون ملک امداد کے نام پر بھیک مانگنے جاتے ہیں تو خود بقول وزیر اعظم انہیں د±کھ ہوتا ہے کہ ایک ہاتھ میں ایٹم بم رکھنے والا ملک دوسرے ہاتھ میں کشکول لیے امداد کے لیے دربدر پھرنے پر مجبور ہے۔ لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ ملک و قوم کو بھیک مانگنے پر مجبور کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ خود یہی حکمران ہیں جو مگر مچھ کے آنسو بہاکر قوم سے جھوٹی ہمدردی کا ناٹک کررہے ہیں۔
معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے اپنے تئیں اقدامات اٹھانے کے بجائے حکومت کا سارا انحصار بیرونی امداد اور س±ودی قرضوں پر ہے، قرضے مزید بڑھنے سے معیشت دبتی چلی جارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ آزاد ذرائع کے علاوہ خود وفاقی حکومت بھی معاشی بدحالی کا رونا رورہی ہے تو پھر اسے درست کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز اپنے گھر سے کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر عوام سے ٹیکس لینا ہے تو خود حکومتوں کو بھی ایسے اقدامات اٹھانے ہوں گے جس سے عوام کو یقین آجائے کہ عوام سے اکٹھا کیا گیا پیسہ حکومتوں کی عیاشیوں پر خرچ نہیں ہو رہا۔ حکومتی وزرا کی ٹیکس تفصیلات دیکھیں تو ان سے کچھ لینے کے بجائے دینے کو جی چاہتا ہے لیکن ان کا لائف سٹائل دیکھیں تو ماضی کے عیاش حکمرانوں/بادشاہوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ بڑے صنعت کار و تاجر بھی یہی کہتے ہیں کہ تجارتی پابندیاں عائد کرنے اور ٹیکس در ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ حکومت بھی اپنے شاہانہ اخراجات میں خاطر خواہ کمی کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی کا ٹرائی اینگل اگر نیک نیت ہو جائے تو قوم موجودہ بدترین معاشی اور سیاسی بحران سے نکل سکتی ہے۔ تاہم اس کے لیے سیاستدانوں اور پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیے دردِ دل رکھنے والے سرمایہ داروں کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہوگا۔
پہلے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت ترین شرائط پر قرضوں کے معاہدے کیے گئے، پھر آئی ایم ایف کی ایماءر پٹرولیم مصنوعات، بجلی، گیس، اشیائے خورد و نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابلِ برداشت اضافہ کیساتھ ساتھ سبسڈیز ختم کردی گئیں۔ اب آئی ایم ایف نے اپنی اقساط کو مزید 400 ارب روپے کے ٹیکسز سے مشروط کرکے غریب پاکستانی عوام کو زندہ درگور کرنے کے لیے نیا جال بچھایا دیا ہے۔ حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرض در قرض کی پالیسیوں نے نہ صرف عوام بلکہ ملکی سلامتی کے لیے بھی شدید خطرات پیدا کردیے ہیں۔ ایسے میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ آنے والے مہینے ملک و قوم کیلئے سخت تر ہوں گے، روپے کی قدر میں مزید گراوٹ سے افراط زر میں اضافہ کا امکان ہے۔
ایک طرف حکومت اپنے کرپشن کیسز ختم کرانے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری طرف وزیر اعظم، وزیر خارجہ بھاری بھرکم وفود لے کر سرکاری خرچ پر پوری دنیا کے سیر سپاٹے میں مسلسل مصروف عمل ہیں، جس کا حاصل حصول کچھ نہیں۔ لہٰذا جب تک حکومت، مراعات یافتہ طبقہ اپنے لائف سٹائل اور طرزِ حکمرانی میں بنیادی تبدیلی نہیں لائیں گے، عوام کا اعتماد بحال نہیں ہوگا۔
بجٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق حکومتی اخراجات کا 30 اعشاریہ 7 فیصد قرضوں اور س±ود کی ادائیگیوں میں چلاجاتا ہے، جسے گرتی ہوئی وصولیوں کے ساتھ سہارا دینا ممکن نہیں۔ درآمدات کی دباو¿ اور برآمدات کی کمی، نیز ہنڈی/حوالہ کے ذریعے ڈالرز کی سمگلنگ کے باعث ملک میں ڈالرز کی قلت پیدا ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے حکومت ایل سیز کھولنے سے خوفزدہ ہے۔ پورٹ پر 5700 کنٹینرز بحری راستے بیرون ممالک سے سامان/ خام مال لاکر کھڑے ہیں لیکن ڈالرز کے آو¿ٹ فلو کے خوف سے حکومت انہیں ریلیز نہیں کررہی۔ بندرگاہوں پر ملکی صنعتوں/کاروباروں کے لیے لائے گئے سامان سے لدے کنٹینرز ریلیز نہ ہونے سے اب تک 12 ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔ ملک میں 60 ہزار سے زائد چھوٹی بڑی ٹیکسٹائل، فارما، آٹو، اسٹیل انڈسٹریز میں سے 25 فیصد بند ہوچکی ہیں۔ جس کے نتیجے میں تقریباً ایک کروڑ افراد بے روزگار ہوچکے ہیں۔ خام مال کی عدم فراہمی کے باعث دواساز کمپنیوں کی بندش سے ملک میں جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت کا خطرہ ہے۔ آٹا، چینی، چاول، گوشت، گھی، دالوں سمیت ضروریات زندگی کی دیگر اشیاءکی قیمتوں میں ہوشربا اور مسلسل اضافہ نے عام آدمی کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا ہے۔ اب تو دوتین وقت کیا، ایک وقت کی روٹی کھانا بھی عام آدمی کے لیے مشکل ہوگیا ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کی وفاقی کابینہ کا سائز دیکھیں تو 76 تک پہنچ گئی ہے۔ 13جماعتی حکومتی اتحاد کے پاس وزراء کیلئے محکمے کم پڑ گئے ہیں،بیشتر معاونین کو علم ہی نہیں کہ انہیں کس شعبہ میں حکومت کی معاونت کرنا ہے۔ بھاری بھرکم کابینہ میں 35 وفاقی وزیر، 7 وزرائ مملکت،4 مشیر اور28 معاونین خصوصی شامل ہیں، 52 ارکان کابینہ کو تنخواہ، گھر، گاڑی اورسفری سہولیات سمیت لاکھوں روپے کی مراعات حاصل ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ بغیر کسی قلمدان کے صرف عہدے اور مراعات کے مزے لینے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ انہیں کرنا کیا ہے۔ بات یہاں آکر نہیں رکتی، بلکہ اس تعداد میں آئے روز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو ان اعدادو شمار میں اضافہ ہو چکا ہو۔ 5 معاونین خصوصی کا سٹیٹس وفاقی وزیر اور 13 معاونین کا وزیر مملکت کے برابرہے، 4 مشیروں کو بھی وفاقی وزیر کے برابر عہدہ اور مراعات دی گئی ہیں۔ سیلری، الاو¿نسز اینڈ پری ویلج ایکٹ 1975 کو دیکھا جائے تو ایک وفاقی وزیر کو 2 لاکھ جبکہ وزیر مملکت کو ایک لاکھ 80 ہزار تنخواہ ملتی ہے، اس کے علاوہ گھر یا گھریلو الاو¿نس، گاڑی، مینٹی نینس، ریلوے، ائیر ٹکٹس، پرائیویٹ سیکرٹری، پرسنل اسسٹنٹ، سٹینو گرافر، قاصد اور نائب قاصد کی سہولت کے ساتھ فلیگ بھی لگتاہے،گھر اور لان کی دیکھ بھال کیلئے بھی لاکھوں کے فنڈز دستیاب ہوتے ہیں،وفاقی وزیر مہینے میں چار چھٹیاں کر سکتا ہے، نہ کرنے کی صورت میں دو لاکھ روپے خصوصی الاو¿نس دیا جاتا ہے، ماہانہ20ہزار ایڈہاک اور22ہزار یوٹیلیٹی الاو¿نس دیا جاتا ہے،11ہزار روپے آلات اور مصارف الاو¿نس کے الگ ہیں، سرکاری رہائش گاہ میسر نہ ہونے کی صورت میں ایک لاکھ تین ہزار کرایہ کی مد میں ادا کئے جاتے ہیں،گھر اپنا ہو پھر بھی کرایہ حکومت ادا کرتی ہے،اہل خانہ سمیت علاج کی سہولت بھی دی جاتی ہے،ملکی/غیر ملکی دوروں کی صورت میں مراعات سہولیات کیساتھ خصوصی الاو¿نس بھی دیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کا موازنہ کیا جائے تو 10 اپریل 2022 کو عمران خان کابینہ کا حجم 56 تھا جس میں 29 وفاقی اور 4 وزراءمملکت، 6 مشیر اور 17 معاونین خصوصی شامل تھے جبکہ آئین کے آرٹیکل 92 کے تحت وفاقی کابینہ میں وفاقی وزراءاور وزرائے مملکت کی تعداد قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل پارلیمنٹ کے کل ارکان کے 11 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔ اس حساب سے وفاقی کابینہ کا حجم49سے زیادہ نہیں بنتا۔ چند ایک کے سوا کوئی وزیر مشیر اپنے محکمہ کے قواعد و ضوابط ،حدود و اختیار سے بھی آگاہ نہیں،جس کے نتیجے میں فیصلوں کا کامل اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے،کابینہ ارکان صرف واہ واہ کیلئے رکھے گئے ہیں۔ نتیجتاً ملک معاشی بحران کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے اورمخلوط حکومت کی بڑی کابینہ کی فوج ظفر موج اور مراعات یافتہ اشرافیہ طبقہ س±کھ کی بانسری بجارہے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بدترین معاشی بدحالی کے باعث حکومت اور اشرافیہ کے اخراجات آدھے کر دیے جاتے، لیکن ان اخراجات میں کمی کی بجائے چار گنا کر دیا گیا ہے۔ گوکہ پوری دنیا معاشی بد حالی کا شکار ہے لیکن پاکستان کا کیس نرالہ ہے، ہم مانگنے کے لیے بھی اپنے ساتھ ”سونے کا کشکول“ لے کر جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک کی بات کی جائے تو وہاں کی معیشت کا زیادہ تر انحصار ٹیکسز پر ہے۔ ہر شہری پر حصہ بقدرِ جسہ کے حساب سے ٹیکس عائد ہے۔ خصوصاً حکمران و تاجر طبقہ کو کسی قسم کی ٹیکس چھوٹ نہیں ہوتی۔ دنیا بھر کی حکومتیں اس ٹیکس کے عوض اپنی عوام کو صحت، تعلیم سمیت دیگر بنیادی سہولیات مہیا کرتی ہیں۔ لیکن وطن عزیز پاکستان میں تو ا±لٹی گنگا ہی بہتی ہے۔ یہاں ٹیکسز کا تقریباً سارا بوجھ تنخواہ دار، دیہاڑی دار مزدور طبقے پر ڈال دیا گیا ہے، جبکہ بااثر طبقات اور ادارے مختلف حیلے بہانوں سے ٹیکس دینے سے ہی گریزاں ہیں۔ نتیجتاً مہنگائی، بے روزگاری کے کوہِ گراں تلے دبا غریب محروم طبقہ اشیائے ضروریہ کی خریداری کے لیے لمبی لائنوں میں لگ کر خوار ہونے اور بھاری بھرکم ٹیکسز دینے پر مجبور ہے، گھر کا چولھا جلائے رکھنا اور روح کا بدن سے رشتہ جو قائم رکھنا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکس چوری بہت بڑا جرم ہے اور اگر یہ جرم ثابت ہوجاتے تو مجرم کو مثالی سزا دی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں سے ٹیکسز اکٹھا کرکے انہیں ہر طرح کی بہترین سہولیات فراہم کرتے ہیں، اس لیے معاشی خوشحالی کے باعث کوئی شہری ٹیکس سے انکار کا سوچتا بھی نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ٹیکسز کا زیادہ تر پیسہ چونکہ حکومت اور اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ ہوجاتا ہے اس لیے یہاں ٹیکس کلچر پروان نہیں چڑھ رہا۔
پاکستان زرعی ملک ہے، ملک کی 75 فیصد آبادی براہِ راست یا بالواسطہ زراعت سے وابستہ ہے۔ پاکستان کا کل رقبہ 79 اعشاریہ 6 ملین ایکڑ ہے، جس میں سے 23 اعشاریہ 77 ملین ایکڑ زرعی رقبہ ہے، جو کل رقبے کا 28 فیصد بنتا ہے۔ اس 28 ملین ایکڑ زرعی رقبہ میں سے بھی 8 ملین ایکڑ رقبہ زیر کاشت نہ ہونے کی وجہ سے بے کار پڑا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال اور زراعت کے لیے موافق ماحول اور موسم کے باعث بہترین زون ہے۔ یہاں ہمہ قسم کی غذائی اشیاء کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں زراعت کا حصہ 21 فیصد ہے۔ زراعت کا شعبہ ملک کے 45 فیصد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔ زراعت لوگوں کو خوراک اور صنعتوں کو خام مال کی فراہمی میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستانی برآمدات سے حاصل زرِ مبادلہ کا 45 فیصد زرعی تجارت سے حاصل ہوتا ہے۔ پاکستانی کپاس، گندم، گنا اور چاول بیرونی منڈیوں میں خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان سب کے باوجود پاکستان میں زرعی شعبے کی ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ زرعی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں مہنگی زرعی مداخل، مہنگی کھاد کے باوجود اس کی بروقت عدم دستیابی سمیت دیگر زرعی لوازمات جیسے ڈیزل، مٹی کے تیل وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہیں۔ زرعی ٹیکسوں اور دیگر کئی اشیاء کی مہنگائی کے باعث کسان مشکلات کا شکار ہے۔ اچھی فصل کے حصول کے لیے مناسب اور بروقت پانی بنیادی ضرورت ہے، تاہم فصلوں کے لیے ضروری پانی کی بروقت عدم دستیابی بھی زرعی پیداوار میں کمی کا باعث ہے۔ نیز کاشتکاروں اور کسانوں کی اکثریت کا غیر تعلیم یافتہ ہونا، کاشتکاری کے جدید طریقوں اور ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی، جراثیم کش ادویات، معیاری بیجوں کے انتخاب اور مصنوعی کھاد کے مناسب استعمال سے عدم آگہی کے باعث فی ایکڑ پیداوار ملکی ضروریات کے مقابلے بہت کم ہے۔ کمزور زرعی انفراسٹرکچر کے باعث لاکھوں ایکڑ زرعی رقبہ حالیہ سیلاب کی نذر ہوگیا، جس کے نتیجے میں ساڑھے 3 کروڑ آبادی متاثر ہوکر خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کا لائحہ عمل ۔
ماہرین معیشت کی جانب سےخدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2023ءمیں بھی ملکی معیشت دباو¿ کا شکار رہے گی اور فوری طور پر بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے، لہٰذا ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ضروری ہے کہ انڈسٹری اور ایکسپورٹ کی طرف توجہ دی جائے اور غیر ضروری امپورٹ پر کٹ لگایا جائے۔ برادر ملک چین کی طرف سے سی پیک کی شکل میں ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے بہت بڑا پروجیکٹ موجود ہے۔ اگر ہم نیک نیتی سے اِسے ہی پایہ تکمیل تک پہنچا دیں تو بھی یہ گرتی ہوئی معیشت کو خاطر خواہ سہارا دینے کے لیے کافی ہوگا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون؟ ایک طرف ڈالرز کی قلت نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے تو دوسری طرف مہنگائی نے بھی پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ایل سیز نہ کھلنے کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی، مہنگی ہونے اور شرحِ سود میں اضافہ بھی انڈسٹری کی تباہی کا باعث ہے۔
کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے میں نمایاں کمی کیلئے پاکستان کو اس قدر بڑے پیمانے پر غیر ملکی امداد پر بھروسہ کرنے کے بجائے سرمایہ کاری کیلئے موافق ماحول یقینی بنانا ہوگا تاکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو حوصلہ افزائی ملے۔ عالمی بنک کی جائزہ رپورٹ، ”کاروبار کرنے کے لئے آسانیاں پیدا کرنے والے ممالک“ کے مطابق 190 معیشتوں کی فہرست میں پاکستان 136 ویں نمبر پر ہے۔ اس درجہ بندی کو بہتر بنانے اور مزید سرمایہ کاری کے حصول کیلئے پاکستان کو کسٹم قوانین کو آسان ،ملکی سیکیورٹی میں بہتری کے ساتھ ساتھ سیاحت اور اس جیسی دیگر صنعتوں کیلئے پسندیدہ منزل کے طور پر اپنے بین الاقوامی تشخص کو ازسرنو تشکیل اورفروغ دینا ہوگا۔ ویزہ پالیسی میں نرمیاں پیدا کرنا بھی اسی ضرورت کے ماتحت ہے۔ اِسی طرح ٹیکس پالیسیوں، بالخصوص چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتوں/ کاروباروں کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں میں مزید لچک کے ذریعے سے مقامی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔ یہ اقدامات پاکستان کو بین الاقوامی منظر نامے پرغیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے ایک مستحکم اور مقابلے کے لئے موثر میدان فراہم کرنے کا باعث ہونگے۔
پاکستان کو اپنی مقامی صنعت پر بھی توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے تاکہ بطور برآمد کنندہ اس کا تعارف وسیع اورعالمی منڈیوں میں اس کی مسابقتی صلاحیت میں اضافہ ہوسال 2018ءمیں پاکستان عالمی مسابقتی انڈیکس (GCI) میں 140 ممالک کی فہرست میں 107 ویں نمبر پر تھا۔ یہ انڈیکس انفراسٹرکچر، آئی سی ٹی کو اپنانے، کلیاتی معاشی استحکام، لیبر مارکیٹ، مہارت، معاشی استحکام اور جدت پیدا کرنے کی صلاحیت جیسے اشاریوں کی مدد سے ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہے۔ درجہ بندی میں کمی یہ واضح کرتی ہے کہ حکومت پاکستان کو معاشی پیداوار کو بڑھاوا دینے اور سازگار کاروباری ماحول فراہم کرنے کیلئے اقدامات ا±ٹھانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں جاری توانائی کا بحران جس کے نتیجے میں صنعتوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے سبب کارخانے داروں کو بنگلہ دیش جیسے ممالک میں اپنا کاروبار منتقل کرنا پڑا ہے، اس کا بھی دیرپا اور پائیدار بنیادوں پر حل نکالنے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں پاکستان کو نئے پلانٹ اور آلہ جات کی تنصیب کے ذریعے سے اپنے صنعتی یونٹوں کو جدید تر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا سے انضمام میں مزید اضافہ کیا جاسکے۔ سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول، ٹیکس اساس میں وسعت، جدت کی حوصلہ افزائی اور برآمداتی صنعتوں کو جدید بنانا چند ایسے ہنگامی اقدامات ہیں جو بڑھتے ہوئے مالی اور کرنٹ اکاﺅنٹ خسارے پر قابو پانے کیلئے مو¿ثر ثابت ہوسکتے ہیں۔
سب سے بڑا سوال برآمدی سامان کی فہرست (جس میں کم قیمت ٹیکسٹائل ، چاول، آلات جراحی، قالین، کھیلوں کا سامان اور چمڑے سے تیار اشیاءشامل ہیں) کو وسعت دینے میں ناکامی سے جڑا ہے، جو ادائیگیوں میں خسارے کے بعد سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستانی برآمدات کے حجم کو وسعت دینے اور ان کیلئے نئی منازل (جیسا کہ مشرقی یورپ اور وسطی ایشیائی ممالک( کی تلاش غیر ملکی زرمبادلہ کی آمدن میں اضافہ کا باعث ہوگا۔
بڑے کاروباروں کو ٹیکس چھوٹ کے خاتمے کے ذریعے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے ،وصولی کے اہداف کے حصول کیلئے ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ لادنے کے بجائے مالی شفافیت کو بہتر بنانے اور قومی و صوبائی سطح پر ٹیکسوں کی وصولی میں کوآرڈی نیشن کو مضبوط بنانا ہوگا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے خطے میں جاری حالات کے پیشِ نظر ملک کی اولین ترحیح سیکیورٹی معاملات ہونے کے سبب معیشت ترجیح نہیں رہی ، لیکن اب بدلتے حالات میں ہمیں جغرافیائی تزویرات کے بجائے جغرافیائی معیشت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں کی 75 فیصد آبادی براہِ راست یا بالواسطہ زراعت سے وابستہ ہے۔ جدید دور کے س±لگتے مسائل میں ایک بہت بڑا مسئلہ فوڈ سیکیورٹی کا بھی ہے، اس لیے خوراک کی قلت پر قابو پانے
کے لیے زرعی انفراسٹرکچر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ زرعی زمینوں کو سیلابی پانی سے محفوظ رکھنے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیمز اور آبی وسائل کی تعمیر وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اس ضمن میں فوری توجہ طلب ا±مور میں سے زرعی قرضوں پر س±ود کا خاتمہ؛ کسانوں کو بجلی، پانی، ڈیزل، کھاد، بیچ اور زرعی ادویات کی سستے/مناسب داموں فراہمی؛ بے زمین کسانوں اور ہاریوں کو غیرآباد سرکاری زمینوں کی وافر مقدار میں پانی اور آبادکاری کے شرط کے ساتھ فراہمی؛ باغات اور زرعی زمینوں پر نئی رہائشی سوسائٹیوں اور کارخانوں کی تعمیر پر پابندی؛ دیہی آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی/ بہاو¿ روکنے کے لیے دیہی ترقی کا جامع منصوبہ اور دیہی علاقوں میں ایگرو بیسڈ انڈسٹری کا قیام وہ چند بنیادی اور فوری اہمیت کے اقدامات ہیں جو ملکی آمدن میں خاطر خواہ اضافہ کیساتھ ساتھ بے روزگاری جیسے مسائل پر کافی حد تک قابو پانے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
مذکورہ بالا اقدامات کے نتیجے میں ا±مید ہے کہ پاکستان مالی و مالیاتی خسارے سے جڑے ا±ن اَن گنت مسائل پر لمبے عرصے کیلئے قابو پانے میں کامیاب ہوجائےگا جو پے درپے حکومتوں کی غلط اور ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں آج ایک اڑدھا بن کر ملک و قوم کا مقدر بن گیا ہے۔
۔۔۔۔ ٭۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں