بلاول بھٹو زرداری اور جاپان

جنوبی ایشیاء کی تاریخ مین پچھلی نصف صدی کے دوران ، دو سیاسی خاندانوں نے ایک لازوال تاریخ رقم کی ہے۔ ہندوستان میں گاندھی خاندان اور پاکستان میں بھٹوخاندان سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے لازوال ہوگئے ہیں۔ دونوں خاندانوں کو سیاست بہت مہنگی پڑی ہے کیوں کہ دونوں خاندان قتل اور سانحات سے نبرد آزما ہوتے زندگی گزارتے آئے ہیں، گاندھی خاندان کو ریاستی تشدد کا سامنا نہیں رہا مگر بھٹو خاندان اس ازیت سے بھی گزر چکا ہے۔ بھٹو خاندان پر جو گزری اس طرح شاہد ہندوستان میں کسی خاندان کا نشانہ بنانا آسان نہیں۔ بھٹو خاندان میں شہید زولفقار علی بھٹو سے بلاول بھٹو زرداری تک جس جس شخص نے پی پی پی کی قیادت سنبھالی خدا نے اسے بے شمار خوبیوں سے نواز دیا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا پی پی پی شہداء کی جماعت ہے اور اس جماعت کی قیادت کرنے والے کو اللہ تعالی کرشماتی شخصیت سے نواز دیتا ہے۔ بلاول بھٹو ذرداری نے 2008 میں سیاست میں قدم ہی رکھا تھا تو اس دن سے آج دن سے آج تک وہ پروپگنڈے کا شکار رہے ہیں مگر گذشتہ ایک سال سے جس طرح بحیثیت وزیر خارجہ بلاول بھٹو ذرداری پاکستان کی خدمت کرتے نظر آرہے ہیں ان کے مخالفین بھی داد دیتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوان چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا دورہ جاپان پر اس لیے تنقید کی گئی کہ ان کے ساتھ ان کی بہن آصفہ بھٹو زرداری بھی موجود تھیں، جو اپنے ذاتی خرچ پر ان کے ساتھ گئیں، لیکن ہمیں یہ بہیں بھولنا چاہیے کہ قائد اعظم محمد علی جناح بھی اپنے سیاسی ملاقاتوں میں اپنی بہن فاطمہ جناح کو ساتھ رکھتے تھے۔ خیر آصفہ بھٹو ذرداری اگر چئیرمین بلاول بھٹو ذرداری کے ساتھ دورہ جاپان میں نہ بھی ہوتیں تو بھی پی پی پی مخالفین اس غیر اہم دوروں پر تنقید سے باز نہ آتے۔ حالانکہ نوجوان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا دورہ جاپان ایک ایسے دور میں ہورہا یے جس میں ہمارے خطے میں تیزی سے جغرافیائی اور سیاسی تبدیلیاں ہورہی ہیں اور جاپان چین کے خلاف آمریکی کیمپ کا ایک اہم حصہ ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلال بھٹو زرداری نے یکم تا 4 جولائی کو جاپان کا چار روزہ دورہ کیا. وہ چار سال میں جاپان جانے والے پہلے پاکستانی وزیر خارجہ ہیں ، جو سفارتی تعلقات استوار کرنے اور دونوں ممالک کے مابین معاشی تعاون کو فروغ دینے پر ایک نئے زور کی نشاندہی کرتے نظر آرہے، 4 سال بعد کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا دورہ جاپان کتنا اہم ہوسکتا ہے اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جاپان کی پوری حکومت بلاول بھٹو ذرداری کے دورہ پر فعال نظر آئی۔ بلاول بھٹو زرداری کا دورہ جاپان ریاستی سطح کے رابطوں کی بحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہورہا ہے۔ چار سال کے وقفے کے بعد جاپان اور پاکستان کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کی طرف یہ ایک اہم قدم ہے، بلاول بھٹو زرداری کے جاپان کے دورے نے پاکستان کے لئے سفارتی تعلقات میں ایک نئے موڑ کا آغاز کردیا ہے کیونکہ وہ ایشیاء پیسیفک کے ایک اہم ملک یعنی جاپان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے جس میں انھیں کافی حد تک کامیابی ملی۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ ان کی کی پاکستان میں ایک اہم سیاسی کھلاڑی کی حیثیت سے بڑھتی ہوئی اہمیت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں نئے تعلقات قائم کرنے کے ان کے عزم کی کوششوں کا عکاس ہے۔اپنے دورے کے دوران ، پاکستان کے وزیر خارجہ نے جاپانی وزیر اعظم کیشڈا فومیو ، وزیر خارجہ حیاشی یوشیمسا ، کاروباری ایگزیکٹوز ، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے ملاقاتیں کی، ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تجارت اور معاشی تعاون کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی ، صحت اور تعلیم میں شراکت کے مواقعوں پر بلاول بھٹو زرداری نے جاپانی عہدیداروں کو نہ صرف قائل کیا بلکہ انھیں یقین دہانی کروائی گئی کہ پاکستان جاپانی انویسٹممنٹ کے لیے ایک پرکشش ملک ہے۔ جاپانی وزیر خارجہ حیاشی سے ملاقات کے بعد بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ “ ہم تجارت ، سرمایہ کاری ، انسانی وسائل کی ترقی ، انفارمیشن ٹکنالوجی ، سیاحت کے شعبوں میں اپنے باہمی فائدہ مند دوطرفہ تعاون کو مزید گہرا کرنا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ممالک میں دوستی کا رشتہ مزید مضبوط ہو۔پاکستان کے وزیر خارجہ کا جاپان کا سفر بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں جاپان پاکستان تعلقات کی بڑھتی ہوئی اہمیت کی نشاندہی کرتا ہے. دونوں ممالک کے مابین تعلقات 1952 سے شروع ہوئے اور اس وقت سے ، جاپان نے پاکستان کو ہمیشہ معاشی مدد فراہم کی ہے ، جس سے مختلف ترقیاتی منصوبے لگائے گئے اور غربت کے خاتمے میں مدد ملی ہے،اپنے دورے کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے تجارت ، سرمایہ کاری اور علاقائی سلامتی سمیت متعدد موضوعات پر جاپانی قیادت اور سرمایہ کاروں سے بات چیت کی۔ چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ نے سائنس اور ٹکنالوجی ، زراعت اور آفات سے نجات سمیت متعدد شعبوں میں دوطرفہ تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا.دونوں ممالک کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے مقصد سے مشترکہ حکومت بزنس ڈائیلاگ کے قیام کے بارے میں مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے جو اس دورے کی ایک اہم پیش رفت ہے۔ پاکستان کے لیے بیرون ملک سے آئی ترسیلات معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہیں اور پاکستان کا بیرون ملک مزدور جہاں بھی ہے وہ پاکستان کے لیے اعزاز ہے اس لیے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے دورہ جاپان میں انسانی وسائل کے تبادلے کی اہمیت پر زور دیا اور جاپان میں پاکستانی ہندمند افراد کے لیے ورک ویزہ وغیرہ کے حوالے سے وہاں کا کاروباری طبقات اور حکومتی عہدیداروں سے گفت و شنید کی۔ کیوں کہ جاپان میں شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے ہنر مند آفراد کی اشد ضرورت ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کے دورے نے جاپان پاکستان تعلقات میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا یے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے
جاپان پاکستان کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے لیکن ستم ضریفی دیکھیں کہ بلاول بھٹو زرداری 4 سال میں پہلے وزیر خارجہ ہیں جنہوں نے جاپان کا دورہ کیا، جاپان آمریکی کیمپ کا اہم حصہ ہے اور چین مخالف کیمپ کا بھی اہم ترین جزو ہے اور ایسے میں جب خطے میں آمریکی کیمپ اور چینی کیمپ ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں ایسے میں بلاول بھٹو ذرداری کا دورہ جاپان اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے چین اس کا سب سے اہم اتحادی اور دوست ہے مگر اس کے باوجود پاکستان کی خارجہ پالیسی خود مختار ہے کیوں کہ اس وقت خارجہ امور کی کرسی پر براجمان ایک بھٹو ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں