دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

جسٹس سجاد علی شاہ جنہیں بینظیر بھٹو نے آئوٹ آف ٹرن چیف جسٹس بنایا تھا،ان کے وزیراعظم سے تعلقات بگڑنے لگے۔ حکومت آصف زرداری کے دوست آغا رفیق کو جج بناناچاہتی تھی جو سندھ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تھے۔چونکہ آغا رفیق 34ویں نمبرپر تھے اس لئے جسٹس سجاد علی شاہ یہ کڑوی گولی نگلنے سے گریزاں تھے ۔ جسٹس سجاد علی شاہ اس حوالے سے وزیراعظم بینظیر بھٹو سے ہونے والی ایک میٹنگ کا ذکر کرتے ہیں جس میں وزیر قانون این ڈی خان،وزیر مملکت برائے قانون رضا ربانی اور سیکریٹری قانون جسٹس شیخ ریاض موجود تھے۔جسٹس سجاد علی شاہ اپنی سوانح حیات ’’law courts in a glass house‘‘میںلکھتے ہیں ’’بینظیر نے کہا،اگر میںآغا رفیق کا نام ہائیکورٹ کے جج کے طور پر تجویز کروں تو کیا خیال ہے؟میں نے اپنا سابقہ موقف دہراتے ہوئے کہا کہ چونکہ میں خود جوڈیشل سروس سے ہوں اس لئے جوڈیشل سروس کے لوگ مجھ سے توقع کرتے ہیں کہ میں ہائیکورٹ کے جج تعینات کرتے وقت انہیں صحیح نمائندگی دوں اور منصفانہ سلوک کروں ۔ آغا رفیق بہت جونیئر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہیں ان سے سینئر ججوں کو سپر سیڈ کرکے انہیں ہائیکورٹ میں نہیں لگایا جا سکتا۔‘‘
آغا رفیق بھی اس میٹنگ میں موجود تھے ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے تجویز دی کہ وہ جوڈیشل سروس سے مستعفی ہو کر اسسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل یا پھر ڈپٹی اٹارنی جنرل بن جائیںاور کچھ عرصہ کام کریں تو بعدازاں ان کا نام ہائیکورٹ کے جج کے طور پر زیر غور لایا جا سکتا ہے۔آغا رفیق کو یہ تجویز اچھی نہ لگی کیونکہ استعفیٰ دیکرہائیکورٹ کا جج بننے کی صورت میں آئندہ حکومت انہیںہٹا دیتی تو وہ نہ ادھر کے رہتے نہ ادھر کے۔میٹنگ ختم ہونے کو تھی کہ آصف زرداری اندر داخل ہوئے ۔جسٹس سعیدالزماں صدیقی کے مطابق آصف زردار ی نے سجاد علی شاہ کو کہا ’’سالے تم کیسے جج بن گئے تھے ،تم بھی تو جونیئر تھے۔‘‘
بینظیر نے جسٹس سجاد علی شاہ کے اعتراضات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ۔آغا رفیق احمد کو سندھ ہائیکورٹ کا جج تعینات کردیا۔حکومت سے تعلقات بگڑنے لگے تو جسٹس سجاد علی شاہ نے ’’الجہاد ٹرسٹ ‘‘کے بانی حبیب وہاب الخیری ایڈوکیٹ کی سپریم کورٹ میںدائر درخواستوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ حبیب وہاب الخیری نے اس سے پہلے لاہور ہائیکورٹ میں بھی متعدد درخواستیںدائر کر رکھی تھیں جن میں ایڈہاک ججوں کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا تھا اور خود چیف جسٹس ،سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر بھی سوالات اُٹھائےگئےتھے ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے ججوں کی تعیناتی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کیلئےاپنی سربراہی میں لارجر بنچ تشکیل دیدیا۔ابتدائی سماعت کے بعد ان درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے 5نومبر 1995ء کو اسلام آباد میں پانچ رُکنی لارجر بنچ کے روبرو فکس کردیا گیا۔وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سنانے کے لئے 20مارچ1996ء کی تاریخ مقرر کردی گئی۔فیصلہ آنے سے ایک دن پہلے وزارت قانون نے سندھ ہائیکورٹ کے 7جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے 10ایڈہاک ججوں کو مستقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا اور ان ججوں نے حلف بھی اُٹھا لیا ۔مگر سب کی نظریں سپریم کورٹ کے فیصلے پر تھیں کیونکہ اگر ججوں کی تعیناتی کے لئے میرٹ اور سنیارٹی کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا اور ایڈہاک اَزم کی حوصلہ شکنی کی جاتی تو خود چیف جسٹس سجاد علی شاہ بھی فارغ ہو جاتے کیو نکہ وہ تین ججوں کو سپر سیڈ کرکے چیف جسٹس بنائے گئے۔یہ افواہیں بھی زیر گردش رہیںکہ حکومت نیا چیف جسٹس تعینات کرنے جا رہی ہے اور اس منصب کے لئے جہانگیر بدر کا نام زیر غور ہے۔
20مارچ1996ء کو سپریم کورٹ نے الجہاد ٹرسٹ کیس کا فیصلہ سنا دیا جسے ججز کیس بھی کہا جاتا ہے ،اسے تاریخی فیصلہ قرار دیا گیا حالانکہ یہ امتیازی انصاف کی بدترین مثال ہے ۔جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے قرار دیا کہ ہائیکورٹس میں تو سینئر موسٹ جج کو چیف جسٹس بنانا آئینی تقاضا ہے مگر چیف جسٹس سپریم کورٹ پر اس اصول کا اطلاق نہ کیا گیا ۔اسی طرح کہا گیا کہ مستقل آسامیوں پر ایڈہاک جج تعینات کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے ۔قائم مقام چیف جسٹس کے پاس ،ججوں کی تعیناتی سے متعلق رائے دینے کا اختیارنہیں ۔آئین میں دی گئی اصطلاحConsultation کی تشریح یہ کی گئی کہ انتظامیہ چیف جسٹس کے مشورے پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے ۔
جسٹس اجمل میاں اپنی کتاب ’’A judge speaks out‘‘میںلکھتے ہیں’’ میںنے جسٹس سجاد علی شاہ کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ جسٹس سعد سعود جان جن کے ریٹائر ہونے میںمحض تین ماہ باقی ہیں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا کسی حد تک ازالہ ہو جائے گااور آپ عدلیہ کی تاریخ میں ایک ایسے چیف جسٹس کے طور پر یاد رکھے جائیں گے جنہوںنے اپنے خلاف فیصلہ تحریر کیا اور اس سے ہمارے فیصلے کی ساکھ میں بھی اضافہ ہوگا مگر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ میں پیغمبر ابراہیم نہیں بننا چاہتا۔میں نے تصیح کی کہ پیغمبر اسماعیل،پیغمبر ابراہیم کی مرضی پر نہیں بلکہ اللہ کی رضا پر قربان ہوئے۔‘‘
جسٹس سجاد علی شاہ نے تاریخ میں امر ہونے کا یہ موقع گنوادیااور جسٹس اجمل میاں اس خوف کے پیش نظر ان کی بات سے اتفاق پر مجبور ہوگئے کہ کہیں وہ ساتھی جج صاحبان کی طرف سے دیوار سے لگائے جانے پر حکومت سے سمجھوتہ نہ کرلیں ۔سپریم کورٹ کے جج میر ہزار خان کھوسو جو اس بنچ کا حصہ تھے ،اور اس فیصلے کے نتیجے میں فارغ ہو گئے ان کا بھی یہی خیال تھا کہ اصول کی بات ہو تو سب سے پہلے چیف جسٹس کو فارغ ہونا چاہئے۔مگر انہوں نے اختلافی نوٹ لکھنے کے بجائے علالت کا بہانہ کرکے خود کو بنچ سے الگ کرلیا اور فیصلہ تحریر کرنے کے عمل میں شریک نہ ہوئے۔حکومت نے اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کی مگر جسٹس سجاد علی شاہ کے بنچ سے الگ نہ ہونے پر ریویو پٹیشن واپس لے لی گئی.

اپنا تبصرہ بھیجیں