بارٹر ٹریڈ کا فیصلہ: مثبت پیشرفت

حکومت نے روس، ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ شروع کرنے کیلئے اجازت نامہ جاری کر کے معیشت کی بحالی کیلئے ایک مثبت پیشرفت کی ہے۔ اس سلسلے میں حکومتی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو بھی تینوں ملکوں کے ساتھ مصنوعات کی درآمد اور برآمد کی اجازت دیدی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ پر موجود برآمد ودرآمد کنندگان اس بارٹر ٹریڈ کے اہل ہوں گے۔ اس سلسلے میں جاری نوٹیفکیشن کے مطابق بارٹر سسٹم کے تحت افغانستان سے پھل اور گری دار میوے، سبزیاں، دالیں، مصالحے، تیل کے بیج، معدنیات، دھاتیں، کوئلہ، ربڑ کا خام مال، کھالیں، کپاس، لوہا اور فولاد منگوایا جا سکے گا۔ اسی طرح ایران سے پھل، گری دار میوے، سبزیاں، مصالحے، معدنیات، دھاتیں، کوئلہ ،پٹرولیم مصنوعات، خام تیل، ایل این جی، ایل پی جی، کیمیائی مواد کی متفرق اشیا، کھادیں، پلاسٹک، ربڑ کی اشیا، کھالیں، خام اون، لوہا اور فولاد وغیرہ منگوایا جا سکے گا۔
علاوہ ازیں بارٹر سسٹم کے تحت روس سے دالیں، گندم، کوئلہ، پٹرولیم مصنوعات، ایل این جی، ایل پی جی، کھادیں، رنگ روغن کی اشیا، پلاسٹک اور ربڑ، معدنیات، دھاتیں، لکڑی، کاغذ، کمیائی مواد، لوہا، فولاد، ٹیکسٹائل سے متعلق خام مال اور مشینری منگوانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے بدلے میں بارٹر سسٹم کے تحت پاکستان سے روس، افغانستان اور ایران کو فرنیچر، ٹیکسٹائل،ریڈی میڈ ملبوسات، قالین، چمڑے کی مصنوعات، جوتے، آئرن، سٹیل، تانبا، ایلومینیم، کٹلری، پنکھے، ہوم اپلائنسز، موٹرسائیکل، ٹریکٹرز، سرجیکل آلات، کھیلوں کا سامان، دودھ کریم، انڈے، سیریل، گوشت، مچھلی، پھل، سبزیاں، چاول ،کنفیکشنری، بیکری آئٹمز، نمک، فارماسیوٹیکل مصنوعات، خوردنی تیل،پروفیوم،کاسمیٹکس،صابن، ماچسیں، لکڑی، پلاسٹک اور ربڑ کی اشیا برآمد کی جا سکیں گی۔
پاکستان کی جانب سے تینوں ملکوں کے ساتھ بارٹر تجارت کی پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان شدید ترین معاشی مسائل سے دوچار ہے۔ زرِمبادلہ کے محدود ذخائر کی وجہ سے درآمدات پر سخت پابندیاں عائد ہیں جبکہ بجلی اور گیس مہنگی ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ انڈسٹری کو لاگت میں اضافے کے باعث بیرون ملک سے ملنے والے آرڈرز میں نمایاں کمی کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کے زیادہ حجم کی وجہ سے پاکستان تجارتی خسارے کا شکار ہے اور یہ تجارتی خسارہ ملک میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے ملک کے بیرونی شعبے میں ادائیگیوں میں عدم توازن کا باعث بن رہا ہے۔
ان حالات کے باعث ملک میں تجارتی سرگرمیاں جمود کا شکار ہیں اور برآمد کنندگان و تاجر طبقہ معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کیلئے پاکستان کو ہمسایہ ممالک سے تجارت شروع کرنے کی اشد ضرورت تھی کیونکہ بیرون ملک سے جب ہم کوئی چیز درآمد کرتے ہیں تو اس کے لیے ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس وقت پاکستان میں زرمبادلہ ذخائر کی قلت ہے۔ اس لیے ایسی صورتحال میں یہ بہترین انتظام ہے کہ بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کی جائے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کم نہ ہوں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ادائیگی کے قابل اعتبار طریقہ کار کی عدم موجودگی اور 2010 میں امریکہ و یورپی یونین کی طرف سے لگائی گئی بین الاقوامی پابندیوں کے باعث پاکستان اور ایران کی باہمی تجارت تعطل کا شکار تھی۔ ان پابندیوں کے باعث پاکستانی بینکوں پر ایرانی بینکوں کے ساتھ کاروباری لین دین پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے باہمی تجارت کیلئےلیٹر آف کریڈٹ (ایل سی) کا حصول بھی ناممکن ہو چکا تھا۔ اسی طرح افغانستان پر بھی طالبان کے قبضے کے بعد سے سفارتی پابندیاں عائد ہیں جبکہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کی وجہ سے روس بھی بین الاقوامی پابندیوں کا شکار ہے۔ ان تینوں ممالک پر بین الاقوامی پابندیوں کے تناظر میں پاکستان کی جانب سے ان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کی اجازت نہ صرف اس کی آزاد خارجہ پالیسی کا ثبوت ہے بلکہ بارٹر ٹریڈ بین الاقوامی پابندیوں سے نمٹنے کا بھی ایک موثر طریقہ ہے کیونکہ ان ممالک پر عائد پابندیاں بنیادی طور پر مالیاتی لین دین کے حوالے سے ہیں جبکہ بارٹر ٹریڈ میں کسی قسم کا مالیاتی لین دین شامل نہیں ہے، اس لئےاس عمل کے بین الاقوامی پابندیوں سے مثاتر ہونے کاامکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اس اقدام سے درآمد وبرآمد کنندگان اور حکومت سب کو فائدہ ہو گا کیونکہ بارٹر ٹریڈ سے ایک طرف زرمبادلہ کی بچت ہو گی اور دوسری طرف ہمیں اپنی برآمدات بڑھانے کا بھی موقع ملے گا۔ علاوہ ازیں ایران اور افغانستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے ذریعے ڈالر کی قدر میں کمی میں بھی مدد ملے گی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت بڑھنے سے باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔ اگرچہ بارٹر ٹریڈ شروع کرنے کا فیصلہ درست سمت میں ایک چھوٹا سا قدم ہے تاہم اس سے پاکستان کے تجارتی خسارے میں کمی لانے اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباو کم کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔ علاوہ ازیں اگر اس بارٹر ٹریڈ کا دائرہ کار دیگر ہمسایہ ممالک تک بھی بڑھا دیا جائے تو پاکستان کی معاشی مشکلات کافی حد تک کم ہو سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کا سالانہ تجارتی حجم سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور ہماری زیادہ تر تجارت امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک سے ہوتی ہے جبکہ ایران، افغانستان اور روس کے ساتھ ہماری تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تینوں ملک ان بیس بڑے ممالک میں شامل نہیں ہیں جن سے پاکستان کے تجارتی تعلقات استوار ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایران اور افغانستان سے مشترکہ سرحدوں کے سبب ان ممالک کے سرحدی علاقوں میں دونوں طرف مقیم لوگوں کے مابین باہمی تجارت کے رشتے کئی صدیوں سے استوار ہیں جو کہ بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کی وجہ سے نہ صرف مزید مستحکم ہوں گے بلکہ اس سے سمگلنگ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں