پراپیگنڈہ اب بھی جاری ہے

یہ دو ہزار سال پرانی بات ہے جب جولیس سیزر روم کا ڈکٹیٹر تھا۔ وہ بہت طاقتور تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی قوت میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ اس بات کا روم کے کئی اُمراء کو رنج تھا۔ چنانچہ ایک منصوبے کے تحت اُنہوں نے مِل کر سیزر کو قتل کر دیا۔ ڈکٹیٹر کی موت کے بعد روم کا سربراہ بننے کے لیے کئی امیدوار سامنے آئے۔ ان میں سے ایک سیزر کا دوست انٹونی جب کہ دوسرا اس کا منہ بولا بیٹا آکٹوین تھا۔
جب سیزر کو دفن کیا جانے لگا تو انٹونی وہ لباس لے آیا جو حملے کے وقت مقتول نے پہنا ہوا تھا۔ ساتھ ہی عوام کے سامنے سیزر کا ایک مجسمہ بھی نمائش کے لیے پیش کیا گیا جس میں وہ تمام زخم دکھائے گئے جو اُمراء نے مقتول کے جسم پر لگائے تھے۔ اس موقع پر انٹونی نے ایک اشتعال انگیز تقریر کی جس میں اس نے لوگوں کو سیزر کے قاتلوں کو انجام تک پہنچانے پر اُکسایا۔ گھاؤ لگا مجسمہ دیکھ اور تقریر سن کر لوگ جذباتی ہو گئے۔ انہوں نے سینیٹ ہاؤس کو آگ لگا دی اور قاتلوں کی طرف لپکے۔ اُمراء نے جب حالات خراب ہوتے دیکھے تو روم چھوڑ کر بھاگ گئے۔ اقتدار کے اب صرف تین امیدوار باقی بچے تھے جن میں سے دو انٹونی اور آکٹوین تھے جب کہ تیسرا سیزرکا پرانا ساتھی لیپیڈس تھا۔
انٹونی نے روم کا مشرقی علاقہ اپنے پاس رکھا، مغربی صوبے آکٹوین اور جنوبی حصّہ لیپیڈس کے حوالے کر دیا۔ مشرقی علاقوں میں مصر کی سابقہ ملکہ قلوپطرہ رہتی تھی۔ انٹونی، قلوپطرہ کی سحر انگیز شخصیت سے اتنا متاثر ہوا کہ اُسی کا ہو کر رہ گیا اور پھر دونوں اکٹھے رہنے لگے۔
اُدھر آکٹوین بِلا شرکتِ غیرے اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس کے پاس فنڈز بھی محدود تھے اور فوج بھی کم تھی۔ سو، اُس نے ایک پلان ترتیب دیا جس کے تحت اُس نے اپنے دور کی سب سے بڑی پراپیگنڈہ وار کا آغاز کیا تاکہ انٹونی اور لیپیڈس کو راستے سے ہٹایا جا سکے۔
آکٹوین نے لوگوں میں یہ بیانیہ پیش کیا کہ انٹونی، قلوپطرہ کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور وہ اس کے پیار میں روم کو تباہ کر کے رکھ دے گا۔ آکٹوین کو معلوم تھا کہ رومی شہری بادشاہت سے نفرت کرتے ہیں۔ سو، اس نے شاہی نظام کو بھی انٹونی سے نتھی کیا اور لوگوںپر یہ باور کروا دیاکہ انٹونی روم میں بادشاہت لانا چاہتا ہے۔ اپنے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے اس نے شعراء کو مال و زر سے نوازا اور مورخین پر بھی نوازشات کی بارش کر دی۔ شعر کہنے والوں نے آکٹوین کی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور تاریخ لکھنے والوں نے اسے ایک کامیاب جرنیل اور عظیم مذہبی رہنما کے طور پر لکھا۔ مؤرخین نے جنگوں میں بہادری دکھانے والے واقعات سے انٹونی کا نام ہی غائب کر دیا۔ آکٹوین نے ہر تعمیری منصوبے پر آرٹ ورک کے ذریعے اپنے آپ کو پروموٹ کیا۔ اس نے سوانح عمری بھی لکھ ڈالی جس میں اپنی تعریفوں کے پُل باندھے۔ جب لوگوں کو آکٹوین کی عظمت کا یقین ہو گیا تو اس نے اگلی چال چلی۔ آکٹوین نے سینیٹ کے ذریعے قلوپطرہ کو روم کا دشمن قرار دلوا دیا۔انٹونی چوں کہ قلوپطرہ کے ساتھ رہ رہا تھا جو اب روم کی دشمن تھی، تو لوگوں کی نظر میں انٹونی کی روم کے لیے وفاداری بھی مشکوک ہو گئی۔ کامیاب پراپیگنڈہ کی وجہ سے لوگ آکٹوین کو مسیحا اور انٹونی کو دشمن سمجھنے لگے۔ پھر روم میں سِوِل وار ہوئی جس میں انٹونی کے اپنے لشکر نے بھی اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ شکست دیکھ کر انٹونی اور قلوپطرہ نے خودکشی کر لی۔ اِسی دور میں اقتدار کے تیسرے امیدوار لیپیڈس پر بغاوت کا الزام لگا کر آکٹوین نے اسے بھی جلا وطن کر دیا۔ میدان صاف ہو چکا تھا اور اب آکٹوین رومن ریاست کا واحد سربراہ تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ انٹونی اور لیپیڈس بہترین سپہ سالار بھی تھے اور قابل سیاستدان بھی۔ ان کے پاس پیسہ بھی تھا اور وفادار فوج بھی۔ دوسری جانب نوجوان آکٹوین نسبتاً ناتجربہ کار تھا اور سیزر کی موت سے قبل اس نے کوئی بڑا کارنامہ بھی سر انجام نہیں دیا تھا جس کی بنا پر اس کو عزت دی جاتی۔ وہ کسی طور سے بھی اپنے حریفوں کے برابر نہیں تھا۔ اس کے پاس مگرایک فن تھا، بیانیہ بنانے کا، جس کا اس نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
مقصد سیاسی ہو یا ثقافتی، پراپیگنڈہ ہر دور میں کیا جاتا رہا ہہے۔ ڈھائی ہزار سال پہلے لکھی گئی کتاب ارتھ شاستر میں جنگ کے لیے ایسے لفظی حملوں کے استعمال کا ذکر موجود ہے جن سے دشمن کے حوصلے پست کرنا مقصود ہوتا تھا۔ فارسی بادشاہ دارا نے اپنی شخصیت ابھار کر پیش کرنے کے لیے پراپیگنڈے کا سہارا لیا۔ بینجمن فرینکلن نے جھوٹی کہانیاں گھڑ کر امریکی عوام کو برطانیہ سے متنفر کیا۔ برصغیر پر حکومت کے جواز کے طور پر برطانیہ نے اپنے عوام کے سامنے برصغیر کے باسیوں کو نہایت منفی انداز میں پیش کیا۔ یہاں تک لکھا گیا کہ ہندوستانیوں نے درجنوں برطانوی بچیوں کی عصمت دری کی ہے، سو ان کو تہذیب یافتہ بنانے کے لیے وہاں رہنا ضروری ہے۔ بیسویں صدی میں ہٹلر، سٹالن کے علاوہ سرد جنگ کے دوران کیا جانے والا پراپیگنڈہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
اکیسویں صدی ہے، پراپیگنڈہ اب بھی جاری ہے۔ کبھی فیک نیوز کی شکل میں، تو کبھی فیک ویوز کی صورت میں۔ کوئی قوم اس سے محفوظ نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس طرح ایک عام آدمی پراپیگنڈہ کا شکار ہونے سے بچ سکتا ہے؟ حل یہ ہے کہ کسی ایک شخص کی بات کو حرفِ آخر نہ سمجھا جائے۔ ذہن کو وسیع کریں تا کہ اس میں ہر طرح کی فکر کو پرکھنے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔ ضروری نہیں کہ اخبار میں چھپی خبر، ٹی وی پہ چلا ٹِکر یا ٹک ٹاک پہ دکھائی گئی ویڈیو حقائق پر مبنی ہو۔ تصدیق کے لیے متبادل ذرائع کا استعمال کریں۔ کسی نے اگرکوئی ٹویٹ کیا ہے تو اس شخص کی ٹائم لائن چیک کریں، اگر وہاں ایک ہی جماعت یا گروپ کے مخالف ٹویٹس ملیں تو ایسے شخص سے ہوشیار رہیں، یہ کسی کا مُہرہ ہے۔ یاد رکھیں کہ قرآنی آیات ہماری سیاست سے متعلق نازل نہیں ہوئیں، اگر کوئی فرد اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کے لیے ان کا استعمال کرے تو اس شخص کی ایسی بات کو نظر انداز کر دیں۔ صرف ایک گروہ کا نقطہء نظر سن کر کبھی پوائنٹ آف ویو نہ بنائیں، تصویر کے دوسرے رُخ کو بھی دیکھیں۔
قارئین، پراپیگنڈہ ملک توڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، قومیں برباد کر سکتا ہے اور جنگوں کا باعث بن سکتا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ کارکردگی دیکھ کر حقائق کو ترجیح دینی ہے یا پراپیگنڈہ کا نشانہ بن کر زبان درازی پر واہ واہ کرنی ہے۔ ملک اپنی بقاء کے لیے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔

3 تبصرے “پراپیگنڈہ اب بھی جاری ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں