چھ دیر فرض کیجئے، محشر لکھنوی

انھیں دیکھ کر مجھے اکرم ماموں یاد آجاتے تھے۔ سانولا رنگ، سنگل پسلی کے دھان پان سے آدمی۔ انھیں تعارف کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی ہوگی۔ اجنبی لوگ دیکھ کر پہچان جاتے ہوں گے کہ شاعر آدمی ہیں۔
وہ شاعر ہی تھے۔ محشر لکھنوی نام تھا۔ نوحے اور سلام کہتے تھے۔ میں نے برا نوحہ کہنے والا کوئی نہیں دیکھا۔ ذکر حسین سن کر سب ہی رو پڑتے ہیں۔ لیکن محشر لکھنوی اچھوں میں اچھا اور منفرد نوحہ کہتے تھے۔
میں نے انیس پہرسری اور پھر ریحان اعظمی کا دور دیکھا ہے جب ہر انجمن اور ہر نوحہ خواں ان سے فرمائش کرکے نوحہ لیتا تھا۔ لیکن احمد نوید اور محشر لکھنوی نے ان دونوں کی موجودگی میں کمال نوحے کہے اور انھیں عالمگیر مقبولیت ملی ہے۔
ڈاکٹر ہلال نقوی کا ذکر نوحہ خوانوں میں عموما نہیں کیا جاتا۔ لیکن انھوں نے بھی بہت عمدہ نوحے کہے ہیں۔ وہ جامع صفات آدمی ہیں۔ ان کے بارے میں جم کر بیٹھ کر لکھنا پڑے گا۔ سرسری تذکرہ نہیں کیا جاسکتا۔
اکرم ماموں کا نام آیا ہے تو ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ وہ میرے امی بابا کے کزن اور بیوی کے سگے ماموں تھے۔ اگر وہ میرے ہم عمر ہوتے تو انھیں ریڈیو یا ٹی وی میں اینکر بناکر دم لیتا۔ ان کی آواز لاکھوں میں ایک تھی۔ خالص اردو کا لہجہ اور امروہے کی زبان۔ لیکن ان کی جنریشن تک ہمارے خاندان میں کوئی میڈیا میں نہیں تھا۔ اتنا عمدہ ٹیلنٹ ضائع ہوگیا۔
مجھے اچھی آوازیں بہت اٹریکٹ کرتی ہیں۔ میری سماعت مجھے دھوکا نہیں دیتی۔ ایک بار لکھا تھا کہ اوبر میں ایک جوڑا ملا۔ مرد کی آواز سنتے ہی میں نے کہا کہ کیا آپ آرٹسٹ ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ تھیٹر کے بڑے اداکار ہیں۔ وہ بھی حیران رہ گئے کہ میں نے کیسے جان لیا۔
نوحے میں نے بہت سنے ہیں اور ان پر لمبی گفتگو کرسکتا ہوں۔ ان پر عام شاعر اور نقاد دھیان نہیں دیتے یا مذہبی شاعری ہونے کی وجہ سے نظرانداز کردیتے ہیں۔ بہت سے نوحے غزل کی طرح ہوتے ہیں اور ان میں بڑے اشعار نکلے ہیں۔ لیکن چونکہ ان کا ایک پس منظر ہوتا ہے، اس لیے ناواقف آدمی ان کی گہرائی اور جاذبیت کا ادراک نہیں کرپاتا۔
انیس پہرسری اور ریحان اعظمی اور احمد نوید سب بڑے شاعر لیکن میرے پسندیدہ نوحے محشر لکھنوی کے لکھے ہوئے ہیں۔
چاہتے شاہ تو ہوجاتی یہ دنیا پانی
یہ فقط نوحہ نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر کچھ ہے۔
اسی طرح ندیم سرور کا نوحہ
تمام عالم میں آج ماتم حسین بے کس کا ہورہا ہے
اور اردو بولنے والا کوئی شیعہ ایسا نہیں ہوگا جس نے یہ نوحہ نہ سنا ہو
کہتی تھی یہ ماں خوں بھری میت سے لپٹ کر
ہئے ہئے علی اکبر
نوحے اور مرثیے کہنے والے شاعر بس انھیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اگر وہ کچھ اور کہتے بھی ہیں تو پیچھے رہ جاتا ہے۔ میں نے محشر صاحب کا وہ کلام دیکھا ہے جو مذہبی شاعری سے ہٹ کر ہے۔ اس کا درجہ بھی بلند ہے لیکن معلوم نہیں، وہ کتاب کی صورت میں چھپا یا نہیں۔
ان کی ایک نظم یاد آرہی ہے جو ضیا الحق کے دور میں کہی اور مزاحمتی ادب کے عنوان سے شائع ہوئے مجموعے میں شامل تھی۔
تبدیلی ایمان ہے ہر پانچ منٹ بعد
تردیدی قرآن ہے ہر پانچ منٹ بعد
آیات کے پردے میں کبھی جھوٹ کبھی سچ
اسلام پر احسان ہے ہر پانچ منٹ بعد
منصف نظر آتا ہے، کبھی عدل کا دشمن
کیا خوب تری شان ہے ہر پانچ منٹ بعد
آئین کے صحرا میں قوانین کا دریا
دفعات کا طوفان ہے ہر پانچ منٹ بعد
اس مرد مسلمان کو مومن کو کہوں کیا
جو صورت سفیان ہے ہر پانچ منٹ بعد
محشر لکھنوی صاحب گزشتہ شب انتقال کرگئے۔ ان کا یہ شعر اگر سمجھ سکیں تو صرف شیعوں کے لیے نہیں ہے۔ حسین کی جگہ کسی بھی مظلوم کو اور اہل عزا کی جگہ احتجاج کا نعرہ بلند کرنے والے سمجھیں،
کچھ دیر فرض کیجیے اہل عزا نہ ہوں
سارا جہاں حسین کا قاتل دکھائی دے

اپنا تبصرہ بھیجیں