گرفتاریاں، چھاپے، دھرنے اور مقدمے

جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو چکا ہے۔ حکمران ٹولے اور اس کی ہمنوا اپوزیشن نے عمران خان کے خلاف قوالی شروع کر رکھی ہے، پتہ نہیں دھمال کون ڈالتا ہے ۔ رہی بات راجہ ریاض کی تو وہ تو خود کو پی ڈی ایم کا حصہ سمجھتا ہے۔ اس اہم مرحلے پر میری اپنی عظیم افواج کے ذمہ داران سے یہ گزارش ہے کہ وہ خود کو پی ڈی ایم کی سیاست سے دور رکھیں۔یہ لوگ اپنی سیاست کی خاطر انتشار پھیلانا چاہتے ہیں۔ جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ انتشار وہ چاہتے ہیں جو الیکشن سے فرار کے خواہاں ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ کہیں 9 مئی کے واقعات میں پی ڈی ایم کی سازش کا دخل تو نہیں ۔ قومی سیاسی تاریخ کے اس اہم موڑ پر افواج پاکستان کو یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہئے کہ وہ کسی سیاسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کر رہے ہیں۔ گزشتہ ایک برس میں آئی ایس پی آر سے جاری ہونے والی مختلف پریس ریلیز سے یہ تاثر ابھرا کہ کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ یہ تاثر نہیں ابھرنا چاہیے تھا۔ حالیہ دنوں میں یہ کھلی منافقت نظر آ رہی ہے کہ اسلام آباد یا لاہور میں چار مسافر بھی اکٹھے ہوں تو دفعہ 144 کے تحت انہیں اٹھا لیا جاتا ہے مگر اسی دوران گزشتہ روز پی ڈی ایم کو سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کے لئے آنے دیا گیا ،نہ انتظامیہ سے اجازت لی گئی اور نہ ہی حکومت نے دفعہ 144 ہٹانے کا کوئی نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ وہ جو کہتے تھے کہ ایک گھملا بھی نہیں ٹوٹے گا ان کی آمد سے اسلام آباد میں قائم ریڈ زون کے سیکورٹی گیٹ ٹوٹ گئے، دروازوں کو پھلانگا گیا اور کسی کا لشکر سپریم کورٹ کے باہر پہنچ گیا ، نہ کسی نے رکاوٹ ڈالی ، نہ کسی نے آنسو گیس کا استعمال کیا ، نہ لاٹھی چلی نہ گولی چلی، یہی منافقت ہے۔ ہمارے ذمہ دار اداروں کو یہ منافقت سمجھنی چاہیے ۔
اگرچہ پچھلے ایک برس سے وقتاً فوقتاً پی ٹی آئی کے لوگوں پر زمین تنگ کی جاتی رہی، مقدمے قائم ہوتے رہے، گرفتاریاں ہوتی رہیں ، چھاپے مارے جاتے رہے، اس سب کے باوجود پی ٹی آئی نہ ٹوٹ سکی۔ لوگوں کے دلوں سے عمران خان کی محبت کو نہ نکالا جا سکا اور نہ ہی حکمران ٹولے سے نفرت کو کم کیا جا سکا۔ سیاسی میدان میں واضح شکست کو دیکھتے ہوئے تیرہ جماعتوں نے کچھ اور لوگوں کو ساتھ ملا کر 9 مئی کی سازش کو ترتیب دیا ۔ پاکستان کے مقبول ترین رہنما کو عدالتی احاطے سے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور پھر اس کے بعد ملک میں آگ لگا دی گئی ۔ کیا عجیب اتفاق ہے کہ اس آگ نے صرف فوجی عمارتوں کا رخ کیا، اس آگ سے رانا ثناءاللہ کے گھر کو تو بچا لیا جاتا ہے مگر لاہور کے کور کمانڈر کا گھر محفوظ نہیں رہتا۔ اسی طرح کے کچھ اور واقعات ہوتے ہیں اور پھر ایک سازش کے تحت حکومتی کارندوں نے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے سارے الزامات پی ٹی آئی کے سر دھر دیے۔ ہمارے ملکی سلامتی کے اداروں کو سازش کی تہہ تک جانا چاہیے نہ کہ حکمران ٹولے کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریوں پر شاباش دینی چاہیے۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد پنجاب ، سندھ اور اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں نے ایسی ایسی کارروائیاں کیں کہ انسانیت لرز کر رہ جاتی ہے۔ کس طرح عثمان ڈار کے گھر پر دھاوے بولے گئے، وہاں عورتوں کی تذلیل کی گئی، پورے گھر کی توڑ پھوڑ کی گئی اور یہ کام مبینہ طور پر ایک وفاقی وزیر کے کہنے پر کیا گیا۔ اسی طرح فیصل آباد اور راولپنڈی میں کچھ سیاستدانوں کی خوشنودی کے لئے پی ٹی آئی کے مختلف رہنماؤں کے گھروں پر نہ صرف دھاوے بولے گئے بلکہ وہاں بچوں اور عورتوں کی تذلیل کی گئی، انہیں ہراساں کیا گیا۔ لاہور میں تو پولیس قہر بن کر ٹوٹ پڑی۔ اسلام آباد اور کراچی میں لوگوں پر تشدد ہوا، لوگوں کو ہراساں کیا گیا ۔ اس دوران چند صحافیوں کو بھی اٹھا لیا گیا۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں پر مشتمل یوٹیوبرز کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ کہیں پہ عورتوں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جاتا رہا ، کہیں پہ دوپٹے نوچے جاتے رہے اور راتوں کو لوگوں کے گھروں میں گھس کر پولیس اہلکار عورتوں کو ایسی دھمکیاں دیتے رہے کہ ان پر شرم اپنا سر جھکا لیتی ہے۔ بد قسمتی سے مبینہ طور پر پولیس اہلکار یہ کہہ رہےہیں کہ ہم تو سب کچھ فوج کے کہنے پر کر رہے ہیں۔ یہی بیانیہ حکمرانوں کا ہے۔ ہماری موجودگی میں ایک وفاقی وزیر نے سیمینار میں فوج کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی کہ سیاست دان سیاستدانوں اور صحافیوں کی گرفتاریاں کیوں کریں گے ، وہی کرتے ہیں ۔
وحشت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خاتون صحافی مہر بخاری کے بقول “پرامن احتجاج کرنے والی خواتین کزنز اور دوستوں کو گرفتار کر لیا گیا ، 21 گھنٹے کی حراست میں چھیڑ چھاڑ کی گئی۔ ہم نے انکی رہائی کے لئے کوشش کی لیکن کوئی سننے کو تیار نہ تھا، اب وہ گھر پر ہیں اور صدمے میں ہیں ، شاید وہ پھر کبھی پر امن احتجاج نہ کریں”۔ میرے دوست نامور ٹی وی اینکر علی ممتاز کہتے ہیں کہ” پنجاب پولیس کی پلاننگ کچھ یوں ہے کہ خواہ کوئی پر امن احتجاج کر رہا ہو تو اسے بھی اٹھا لو، اسی لئے خاص طور پر خواتین کو سبق سکھانے کے لئے مرد پولیس اہلکاروں کے ذریعے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں ۔ اس کے بعد تھانوں میں بد تمیزی کی جاتی ہے تاکہ یہ پڑھے لکھے لوگ آئندہ کبھی کسی احتجاج میں شامل نہ ہوں اور یوں ہر اٹھنے والی آواز دبا دی جائے”۔
صاحبو!! گرفتاریاں ، چھاپے اور مقدمے نفرت میں اضافہ کرتے ہیں محبت میں نہیں۔ میں تو سب کو سمجھ داری کی اپیل کرتا ہوں کہ بقول احمد فراز
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

اپنا تبصرہ بھیجیں