شفیق باپ

ہمارا خاندان بھارت کے شہر امرتسر کے گاوں جیٹھوال سے ہجرت کر کے پاکستان کے شہر لاہور میں آیا خاندان کے کچھ لوگ کرتار پور کے قریبی تاریخی قصبہ نونار میں چلے گئے اور 80 کی دہائی میں اس گاوں نونار سے بھی منتقل ہو کر لاہور آباد ہو گئے۔ والد صاحب بھارت کی تقسیم کے بعد جس ٹرین پرسکھوں نے حملہ کیا تھا، بچتے بچاتے لاہور اپنی خالہ عنائتی کے گھر آ گئے کیونکہ تقسیم ہند سے قبل انھوں نے لاہور میں اپنی خالہ عنائتی کا یہ گھر دیکھا ہوا تھا والدہ کا تمام خاندان بہن بھائی تقسیم ہند کے وقت سکھوں کی قتل وغارت میں شہید ہو گئے۔ والد کو اب صرف اپنی خالہ کی مالی سپورٹ حاصل تھی بھاٹی گیٹ لاہور سے پرائمری جماعت تک جب تعلیم مکمل کر لی تو معلوم ہوا کہ ان کے ایک چچا جن کا نام یوسف شاہ تھا زندہ بچ گئے ہیں جب اُن کو والد کا معلوم ہوا کہ وہ لاہور میں ہیں تو وہ ان کو نارووال کے قصبہ نونار میں لے آئے، جہاں سے والد صاحب نے میڑک کی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول نونار سے مکمل کی۔
لاہور بھاٹی گیٹ ہائی سکول میں ان کے ساتھ ان کے خالہ زاد بھائی سکندر پڑھتے رہے ہیں جو ادب کی دنیا میں اب خالد بٹالوی کے نام سے پاکستان میں اپنی شناخت رکھتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ والد کے نانا محکمہ جنگلات بھارت میں ملازم تھے اور میرے دادا رمضان شاہ تحصیلدار کے عہدہ پر فائز تھے۔ خالد بٹالوی یہ بھی سناتے ہیں کہ میرے والد انتہائی ذہین اور فطین شخص تھے اور ان کا خاندان امرتسر میں حکمت میں بڑا نام رکھتا تھا، وہ اس ٹرین کے واقعات سناتے ہوئے رو پڑے جس ٹرین میں میرے والد لاشوں کے نیچے دب کر بچ گئے۔خالد بٹالوی اب بھی ادبی سر گرمیوں میں مصروف ہیں۔اپنے چچا کے ہاں والد صاحب کو خالصتاً مذہبی ماحول ملا، اُن کے چچا ارد گرد کے سیکڑوں دیہات کے فیصلے کرتے تھے۔والد صاحب نے عملی زندگی کا آغاز مری وٹرنری ہسپتال سے کیا اور پھر ٹیکسلا راولپنڈی سیایکوٹ سبز پیر قلعہ احمد آباد سنکھترہ اور لیسر کلاں میں فرائض سر انجام دیے۔ 35 سال کی عمر کے بعد ان کی زندگی میں تبدیلی اس طرح آئی کہ وہ اللہ توکل کے زیادہ قریب ہوگئے اور لیسر کلاں میں اپنی سروس کے 10 برسوں میں ان کی زندگی سے متاثر ہو کر کئی ہندو خاندانوں نے اسلام بھی قبول کیا، لیسر کلاں بھارت اور مقبوضہ کشمیر کی سرحد کے قریب 3کلومیڑ کے فاصلہ پر ایک قصبہ ہے۔
والد صاحب ڈاکٹر سید عبد الحمید گیلانی 1936 میں امرتسر سے 8 کلومیڑ کے فاصلہ پر گاوں جیٹھوال میں پیدا ہوے اور 2003 میں 68 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ جب پیدا ہوئے، بھارت میں 1935 کا آئین نافذ ہو چکا تھا اور قائداعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان زروں پرتھی ہمارے داد اور خاندان کے دیگر افراد اس تحریک میں آگے آگے تھے والدصاحب کی عمر سات سال تھی جب پاکستان بنا ان کی شادی کالا شاہ کاکو میں ہوئی اس ریلوے اسٹیشن کا ذکر ممتاز مفتی نے بھی کیا ہے۔ والد صاحب متقی اور پرہیز گار انسان تھے تہجد باقاعدگی سے پڑھتے اور بچوں کو پانی پر دم کر کے دیتے تو وہ رونا بند کر دیتے، ہمارے گھر میں فجر کی نماز کے بعد عورتوں کا ہجوم لگ جاتا جو دم کروانے کے لیے آتی تھیں جہاں ملازمت کرتے وہاں بھی ارد گرد کے دیہات کے لوگ ان سے فیض یاب ہوتے ہماری تربیت انھوں نے خوبکی، ہمیشہ دوستانہ ماحول دیا،خود اُنہوں نے بڑی سادہ زندگی گزاری اور لوگوں کو تصوف اور اللہ سے لگاو کی تلقین کرتے باعمل اور درویش کامل شخص تھے۔اسی طرح ہمارے نانا جی، سید فضل حسین شاہ جن کا حال ہی میں انتقال ہوا، نے زندگی با عمل طریقہ سے گزاری اور 90 سال تک ہربنس پورہ لیبر کیمپ جیسی بستی میں اسلام کی اشاعت کرتے باعمل زندگی گزاری۔ وہاں ایک مسجد بھی بنائی والد صاحب نے زندگی کے اخری ایام قصبہ نونار میں گزارے اور تصوف کی کئی منازل طے کیں، ان کی گفتگو سے لوگ بہت متاثر ہوتے اور رات تک اللہ اور نبی کریمؐ کی باتیں جاری رہتیں۔ دل کے عارضہ کے سبب پی آئی سی لاہور میں داخل ہوئے تو دل کی سرجری ہونا طے پائی۔ ڈاکٹر رات کو چیک کرتے تو صبح آپریشن کرنے کا کہہ کر چلے جاتے والد صاحب کہتے جو دل اللہ کی یاد میں مشغول رہتا ہو وہ خراب نہیں ہو سکتا صبح ڈاکٹر جب آپریشن تھیٹر میں لے کر سرجری کرنا شروع کرتے تو بلڈ پریشر بڑھ جاتا تین بار ڈاکٹر والد صاحب کو دنوں کے وقفہ سے لیکر گئے تو معاملہ اسی طرح ہوتا کہ بلڈ پریشر بڑھ جاتا جب آپریشن تھیٹر سے باہر لے کر آتے تو ٹھیک ہو جاتا۔ ڈاکٹر وں نے کہا کہ یہ ولی اللہ ہیں ہم ان کا آپریشن کرنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ویسے تو یہ بالکل آپریشن کے لیے فٹ ہوتے ہیں لیکن تھیڑ میں لے جاتے ہیں تو اسی وقت بلڈ پریشر بڑھ جاتاہے۔ ان کی بات درست ہے کہ جو دل اللہ کی یاد میں مشغول رہتا ہو بیمار نہیں ہو سکتا۔ اس کے دو سال بعد والد ان جہاں فانی سے رخصت ہوئے جب دفن کیا گیا تو ان کی قبر سے روشنی نکلنی شروع ہو گئی جس پر لوگوں نے سبحان اللہ کہنا شروع کردیا۔ والد کو بچھڑے 20سال ہو گئے ہیں لیکن ان کی تعلیمات لوگوں کے لیے اور خصوصی طور پر تصوف والوں کے لیےمشعل راہ ہیں ۔والد کا مزار مشہور بزرگ بابا عبد اللہ شاہ غازی کے عقب میں قصبہ نونار نارووال میں ہے جہاں یکم اپریل کو ان کا عرس ہوتا ہے۔

شفیق باپ” ایک تبصرہ

  1. You are in reality a excellent webmaster. This web site loading speed is incredible. It kind of feels that you’re doing any distinctive trick. In addition, the contents are masterwork. you’ve done a fantastic process in this subject! Similar here: sklep online and also here: Bezpieczne zakupy

اپنا تبصرہ بھیجیں