ایڈگر ایلن پو کا کوّا

The Raven (Edger ellen poe)

مَن بوجھل
شب گہری اندھیری،
نیند میں اُلجھی سوچیں میری
اور اچانک
ٹھک ٹھک
ٹھک ٹھک
دروازے پر کوئی دستک
کس نے مجھ کو چونکایا تھا
دروازے پر کون آیا تھا ؟
میں زیرِ لب چلاّیا تھا
“کون آیا ہے دروازے پر؟ ”
کس نے دی ہے دستک
مجھ کو یاد ہے ابتک
سرد بہت خاموش دسمبر
جس میں سردی راکھ ہوئی
اس راکھ میں میت
آگ کی پنہاں
یاد ہے مجھ کو
آتشدان کے فرش پہ انگاروں کے سائے رقصاں
پہن کے شعلوں کی پازیب
جیسے یادوں کے آسیب
یادوں میں اِک یاد مِری لاریب
میری لاریب
خوف، تجسس، وحشت، اُلجھن
تھر تھر کرتے کاسنی چلمن
دل کی دھڑکن……….تیز
شب رِقّت آمیز
سب رقت آمیز تھا، پردہ لہرایا
دروازے پر کون آیا؟
کون ہو تم اور کیا ہے نام
صاحب یا مادام؟؟
صاحب یا مادام کو مجھ سے کیا ہے کام؟
دستک ابتک سُن نہیں پایا
سُن کر دروازے تک آیا
کھولا دروازہ تو پایا
بس
اندھیرا۔۔۔۔۔
اندھیرے میں تاکا۔۔۔جھانکا
سوچا۔۔۔سہما۔۔۔ لرزا۔۔۔ کانپا
جُز خاموشی کچھ نہیں پایا
بس اک سکتہ۔۔۔۔۔!
جیسے سرگوشی بالغیب
سرگوشی: لاریب۔۔۔۔!
دورازے سے واپس جب تک پلٹا
دروازہ کر کے بند
دستک میرے کان میں پہنچی
ہو کر اور بلند
سمجھا۔۔۔۔
کھڑکی بجتی ہوگی
باہر تیز ہَوا ہی ہوگی
سمجھا۔۔۔۔اور خود کو سمجھایا
کھڑکی تک آیا پَٹ کھولے
دیکھا۔۔۔۔
ایک پرندہ پایا
کالا کوّا اندر آیا
جھجکا سہما نہ گھبرایا کوّا
کھڑکی سے دروازے پر
جا بیٹھا کوّا
کوّا تھا اور۔۔۔۔ کوئی نئیں!
خوف، تجسس اور وحشت میں
اس جرّت پر
ایک پرندے کی صحبت میں
میرا بوجھل من مسکایا
میں نے اسے بلایا
“آپ جناب کہاں سے آئے
پَر پھیلائے
ایسی بوجھل شب میں
کوؤں کا بھی کام کوئی ہے؟
آپ جناب کا نام کوئی ہے؟”
بولا : “کوئی نئیں ”
کیا
میں نے آواز سنی
میں نے کیا آوا‌ز سنی
سچ ہے یا پھر کوئی خواب
ایک پرندہ۔۔۔۔اور جواب
لایعنی سا کوئی جواب
کون ہے جس نے پایا ہوگا
کس کے پاس بھلا یوں
کوئی پرندہ آیا ہو گا
جس کا نام :
” کوئی نئیں ”
لیکن۔۔۔تنہا۔۔۔۔کالا۔۔۔ کوّا
شب کی کالک میں روپوش
بس اِک لفظ میں روح سما کر
دروازے کے اوپر جا کر
بیٹھا ہے خاموش
تب میں نے بھی خاموشی میں
خاموشی سے سرگوشی کی
اور سُنی اپنی دھیمی آواز
“دستک دینے والے پہلے بھی آئے تھے
دوست بنے تھے۔۔۔امیدیں تھیں
پر اب کیا ہے؟؟؟
کمرے کے دروازے پر کوّا بیٹھا ہے
وہ بھی کل تک اُڑ جائے گا
جیسے کی سب نے پرواز
ٹہرا کون
بولا : “کوئی نئیں”
خاموشی ٹوٹی۔۔ دل دھڑکا
اِس اک بات پہ میں پھر چونکا
واحد بات اسے آتی ہے
بس اِک بات یہی سیکھی ہے
اپنے مالک سے کوّے نے
اس کا مالک ظالم ہو گا
جس کے ظلم سے بھاگا کاگا
یوں میری کھڑکی تک آیا
پھر سے میرا من مسکایا
اور میں خود کو
اس کے آگے کرسی تک لے آیا
بیٹھا۔۔۔دیکھا۔۔۔ٹیک لگائی
سوچا۔۔۔سمجھا۔۔۔اپنے تئیں
پر سمجھ نہ آئی
کیا ہے آخر کیا یہ اسکا
کوئی نئیں
میں کرسی پر
ٹیک لگائے
وہ نظریں کرسی پہ جمائے
بیٹھا تو دس واہمے آئے
لیکن اس کو۔۔۔۔
اس کو واپس کون بلائے
وہ جس کا ممکن نہیں آنا
کیا ممکن ہے اس کو بھلانا
بولا: ” کوئی نئیں ”
چیخ پڑا میں اب کے سن کر
” تُو…! کوئی شیطانی چکر
جادو ٹونا
تُو جو بھی ہے
ایک پرندہ
جو کچھ بھی ہے
بھیجا گیا یا یونہی آیا
اس دنیا کے مخبر
مجھ بے تاب کو اتنا بتا دے
دور عدن میں
کیا کوئی ہے
جس کو عدن ہی اب دیتا ہے زیب
جس کو حوریں اور فرشتے
کہتے ہوں لاریب
بولا : “کوئی نئیں”
اور پرندہ
کالا ۔۔۔۔۔کوّا
آج بھی اس ہی دروازے کے اوپر
چپ
اپنی شیطانی آنکھیں گاڑے
پَر پھیلائے
فرش پہ اس کے سائے
لمبے۔۔۔چھوٹے۔۔۔ترچھے۔۔۔آڑے
روح کو میرے ساتھ ملا کر
کرتے ہیں پرواز
کمرے میں اب۔۔۔۔۔کوئی نئیں!

عمار اقبال

اپنا تبصرہ بھیجیں