امریکا انڈیا مشترکہ اعلامیہ اور پاکستان؟

انسانوں کے نام
جس طرح ہماری زبان کا محاورہ ہے کہ پانی ہمیشہ نشیب میں جاتا ہے۔ ایک ہی حرکت امیر غریب کریں تو غصہ زیادہ غریب پر آتا ہے اور اکثر وہی پکڑے جاتا ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کی صورت وہی سہتا ہے۔ ایک مؤقف یہ بھی ہے کہ جس نوع کی ہلکی حرکت کوئی بھوکا ننگا کرلیتا ہے اس کی توقع رجے پجے ذمہ دار سے نہیں کی جاتی۔
واشنگٹن میں امریکی پریذیڈنٹ جوبائیڈن اور انڈین پرائم منسٹر نریندرامودی کے باضابطہ مذاکرات کے بعد جاری ہونے والے طویل مشترکہ علامیہ میں چین کا تو نام نہیں لیا گیا البتہ پاکستان کا نام لے کر کہا گیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ اس کے زیر کنٹرول کوئی بھی علاقہ دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے پائے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی فہرست میں شامل تمام دہشت گرد گروپوں بشمول القاعدہ، داعش، لشکرِ طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین وغیرہ کے خلاف ٹھوس اقدامات کیے جائیں ممبئی اور پٹھان کوٹ حملوں کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
مشترکہ علامیہ میں امریکا اور بھارت نے عالمی دہشت گردی اور ہر نوع کی انتہا پسندی کی یک زبان ہوکر مذمت کرتے ہوئے متحد ہوکر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے FATF سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کے لیے رقوم کے استعمال کو روکنے کی خاطراقدامات مزید تیز کرے، طالبان سے بھی طے شدہ شرائط پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ افغانستان ایک پرامن ملک بن سکے۔ پاکستان میں ظاہر ہے اس چیز کو ہر دو حوالوں سے ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا ہے ایک تو اس پس منظر میں کہ پاکستان اپنے تئیں روزِ اول سے امریکا کا اتحادی چلا آرہا ہے جناح نے پاکستان بنتے ہی اس نوع کا ڈول ڈال دیا تھا اور پھر جب پنڈت نہرو کی مخصوص سوشلٹ اپروچ کے زیراثر انڈیا سویت یونین کے بہت قریب خیال کیاجاتا تھا یا اس نے مصری صدر جمال عبدالناصر کے ساتھ مل کر نان الائین مومنٹ کی بنیادیں استوار کی تھیں پاکستان اس وقت بغداد پیکٹ سیٹو اور سینٹو میں باضابطہ شمولیت اختیار کرتے ہوئے خود کو امریکی مفادات کی رکھوالی کا بڑا خدمتگار خیال کرتا تھا ہم نے پارٹیشن کے ساتھ ہی جو بھاری بھرکم آرمی ورثے میں حاصل کی تھی اُس کا لوڈ اٹھانے کی ہماری سکیم ہی اس نوع کی تھی کہ ہم مغربی اتحادی بن کر خدمات سرانجام دیں اور بدلے میں ثمرات سمیٹیں، ہماری دوسری تکلیف یہ بھی ہے کہ جمہوری دنیا، امریکا اور انڈیا جیسے ممالک جب عالمی یا اسلامی ٹیررازم کے حوالے سے انگلیاں ہماری طرف اُٹھاتے ہیں ہمیں اس کا ماسٹر مائنڈ سہولت کار یا ذمہ دار گردانتے ہیں تو ہمارا اضطراب یہ ہوتا ہے کہ اے دنیا والو ہمیں دہشت گرد یا ان کا حمایتی نہ سمجھو ہم تو خود اس کا شکار ہیں ہمارے اتنے فوجی اور اتنے زیادہ سویلین دہشت گردی کی وجہ سے جانیں گنوا چکے ہیں مگر کیا کریں دنیا ہماری ان دلیلوں کو اس لیے درخوراعتنا یا قابلِ قبول نہیں سمجھتی کہ جس برائی کی آپ نے خود آبیاری کی ہے اگر بارود کا کاروبار کرنے والے کے اپنے بچے اس میں جھلس جاتے ہیں تو یہ چیز وہ اپنے دفاع میں پیش نہیں کرسکتا کیونکہ یہ دھندہ اس نے خود اپنی چائس سے اختیار کیا تھا ہم کہتے ہیں نہیں یہ تو امریکی ایشو تھا وہ دنیا کے نقشے سے سوویت یونین کو تحلیل کرنا چاہتا تھا ہمیں اس نے استعمال کیا لیکن جب ہم اس دور کے واقعات و حقائق میں جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمیں تو خود ایسی چھیڑخانیوں کی شوق تھی ہم نے کافروں کو سبق سکھانے کے لیے خود اپنی شوق اور چائس کے ساتھ مذہب کا نامناسب سیاسی و جہادی استعمال کیا پوری قوم کو جہادی پروگراموں میں لگایا اور ایسے مضبوط جہادی گروپ تشکیل دیے، مشترکہ دشمن کا پلان اٹھاتے ہوئے جن کی معاونت کے لیے ہم نے عالمی تعاون لیا جب تھوڑا ملا تو مونگ پھلی کہا جب پورا ملا تو بسم اللہ کہا۔
دوسرے انڈیا کے بالمقابل ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ کرائے کے سپاہی کی رہی ہم امریکا و مغربی طاقتوں کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے میں پیش پیش رہے اور بدلے میں خدمات کے حجم سے بڑھ کر بھاری معاوضہ وصول کرتے رہے یہ کوئی برابر کی دوستی یا اصولوں کی جدوجہد نہیں تھی محض مفادات کی گیم تھی جس میں ہماری طرف سے دوھری تہری بے اصولیاں بھی ہوئیں انہوں نے ہمیں جو معاشی و فوجی امداد اس شرط کے ساتھ دی کہ اس کا استعمال محض سوویت جبر کے خلاف ہوگا انڈین جمہوریت کے خلاف ہرگز نہیں ہوگا ہم نے اس عہد کی پاسداری کرنے کی بجائے انڈیا سے جنگیں چھیڑ دیں آخر میں ہم اس حد تک نیچے چلے گئے کہ ٹیررازم کو جیسے اپنی قومی پالیسی بنالیا کبھی جہاد کشمیر کے نام پر اور کبھی جہادِ افغانستان کی جدوجہد کے نعرے لگاتے ہوئے ایسے گروپس کی کبھی کھلی اور کبھی ننگی حمایت کی جن کو ختم کرنے کے لیے ہم بھاری رقوم اور حساس ہتھیار حاصل کرتے رہے دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے انہیں اندر خانے توانا بھی کرتے رہے یہ تلخ حقائق ہیں جنہیں تسلیم کرنے کا ہم میں حوصلہ ہونا چاہیے۔
آج ہمارے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ جس نوع کی ہانکتے پھررہے ہیں اس میں بھی دانش و شعور یا حقائق شناسی کی کوئی رمق نہ ہے محض یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ بھارت امریکا اعلامیہ گمراہ کن ہے یا یہ بیان سفارتی اصولوں کے منافی ہے یہ کہ ٹیررازم کے بیج بونے میں واشنگٹن کا کردار ہے اور ہم اس کی قیمت چکارہے ہیں اب ہمیں ڈالرز ملنے بندہوگئے ہیں تو دوڑ کر چائینہ کی گود میں بیٹھ گئے ہیں تو کیا چائینہ ہمارے وہ خرچے اُٹھائے گا جن کے ہم سات دھائیوں سے عادی رہے ہیں اور امریکی جو ادائیگیاں ہمیں کرتے رہے ہیں شہدسے میٹھے کی بات تو تب تھی جو وہ ہمیں IMFکی چوکھٹ پر ناک رگڑنے سے بچانے آجاتا، حالت ہماری یہ ہے کہ ہم لعنتیں بھی امریکیوں پر ڈالتے ہیں اور ملک چلانے کے لیے مرہون منت بھی IMF کے ذریعے امریکنوں کے ہیں، جب امریکیوں نے ہمیں جمہوری تسلیم کرتے ہوئے جمہوری ممالک کی کانفرس میں مدعو کیا تھا تو ہم کس کے کہنے پر نہیں گئے تھے ؟ ہماری خارجہ پالیسی کے ذمہ داران کو کبھی کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھ لینا چاہیے اور نہیں تو انڈیا کو دیکھ کر ہی اپنی خارجہ پالیسی میں موجود بلنڈرز کی درستی کا اہتما م کرلینا چاہیے۔
انڈیا نے کرائے کے ٹٹو بننے کی بجائے اپنی خارجہ پالیسی کو ہمیشہ ایک اعتماد اور وقار کے ساتھ چلایا ہے اس سے بڑا ثبوت کیا ہے کہ رشیہ سے تعلقات بگاڑے بغیر وہ پوری خودداری کے ساتھ امریکی پارٹنر بن چکا ہے اور اپنی قوم کے لیے برابری کی سطح پر ثمرات سمیٹ رہا ہے کیا یہ انڈین خارجہ پالیسی کی عظمت نہیں ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں بیک وقت اسے اپنا قابلِ اعتماد دوست اور حلیف خیال کرتے ہیں چائینہ سے سرحدی جھگڑوں اور جھڑپوں کے باوجود وہ اپنے کاروباری مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتا، پاکستان سے مخالفت کے باوجود وہ پورے عالمِ اسلام سے بہترین تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ونر کی پوزیشن میں ہے مسلم ورلڈ کے بڑے بڑے دارالحکومتوں میں مودی کی جتنی آؤ بھگت ہوتی ہے اور جس طرح ان کے تمام بڑے سویلین قومی ایوارڈ مودی کی بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں جیسے کہ حال ہی میں مصر کے صدرعبدالفتح الیسسی نے قاہرہ میں اپنے ملک کا سب سے بڑا ایوارڈ ”آرڈر آف دی نیل“ پیش کیا ہے اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اپنی دشمنیوں کو دوستیوں میں بدلیں اور انڈیا دشمنی کا کیڑا اپنے دماغ سے نکال باہر کریں

2 تبصرے “امریکا انڈیا مشترکہ اعلامیہ اور پاکستان؟

اپنا تبصرہ بھیجیں