وہ یکتا اور بے مثال ہے۔

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۞ قُلْ هُوَ اللہُ أَحَدٌ ۞ اللہُ الصَّمَدُ ۞ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ۞ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ۞

۔ (اے رسول(ص)) آپ(ص) کہہ دیجئے! کہ وہ (اللہ) ایک ہے۔ ۔ اللہ (ساری کائنات سے) بےنیاز ہے۔ ۔ نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ ۔ اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ ۔

📚 تفسیر 📚

اس سُورہ کی پہلی آیت بار بار کے ان سوالات کے جواب میں ہے جو مختلف اقوام یا افراد کی طرف سے پروردگار کے اوصاف کے سلسلہ میں ہوئے تھے ،فرماتا ہے :”کہہ دیجیے وہ یکتا و یگانہ ہے” (قل ھو اللہ احد ).۱؎
جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ (ص) کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا تو آپ (ص) نے فر مایا:
“یا علی !علمت الاسم الا عظم “۔”اے علی آپ کو اسم ِاعظم کی تعلیم دی گئی ہے “۔اس کے بعد جنگ ِبدر میں یہی جملہ میرا وردِ زبان رہا ۔۔.۲؎
“عمار یاسر (رض) ” نے جب یہ سُنا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السّلام صفین کے دن جنگ کے وقت یہی ذکر پڑھ رہے تھے تو عرض کیا :یہ کیا کنایات ہیں ؟تو آپ نے فرمایا :یہ خدا کا اسمِ اعظم اور توحید کا ستون ہے .۳؎
“اللہ “خدا کا اسم ِخاص ہے اور امام کی بات کا مفہوم یہ ہے کہ اسی ایک لفظ کے ذریعے اس کے تمام صفاتِ جلال و جمال کی طرف اشارہ ہوا ہے، اور اسی بناء پر اس کو اسمِ اعظم الہٰی کا نام دیا گیا ہے۔ اس نام کا خُدا کے سوا اور کسی پر اطلاق نہیں ہوتا جب کہ خدا کے دوسرے نام عام طور پر اس کی کسی صفتِ جمال و جلال کی طرف اشارہ ہوتے ہیں، مثلاً : عالم و خالق و رازق ،اور عام طور پر اس کے غیر پر بھی اطلاق ہوتے ہیں ۔(مثلاً رحیم ، کریم ، عالم ،قادر وغیرہ)۔ اس حال میں اس کی اصل اور ریشہ وصفی معنی رکھتا ہے اور اصل میں یہ “ولہ “سے مشتق ہے ،جو “تحیر”کے معنی میں ہے کیونکہ اس کی ذاتِ پاک میں عقلیں حیران ہیں، جیسا کہ ایک حدیث میں امیر المومنین علیؑ سے آیا ہے :”اللہ معناہ المعبود الذی یألہ فیہ الخلق ویؤلہ الیہ ،واللّٰہ ھو المستور عن درک الابصار ، المحجوب عن الاوھام والخطرات”۔
“اللہ کا معنی ایک ایسا معبود ہے جس میں مخلوق حیران ہے اور اس سے عشق رکھتی ہے ۔ اللہ وہی ذات ہے جو آنکھوں کے ادراک سے مستور اور مخلوق کے افکار و عقول سے محجوب ہے” .۴؎
بعض اوقات اسے “الاھة”(بر وزن و بمعنی عبادت ) کی اصل اور ریشہ سے بھی سمجھا گیا ہے اور اصل میں”الالٰہ “ہے جو “تنہا معبُود حقیقی”کے معنی میں ہے ۔ لیکن۔۔۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے ۔۔۔۔اس کا ریشہ اور اصل چاہے جو بھی ہو ، بعد میں اِس نے اسمِ خاص کی صُورت اختیار کر لی ہے اور یہ اسی جامع جمیع صفاتِ کمالیہ اور ہر قسم کے عیب و نقص سے خالی ذات کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اِس مقّدس نام کا قرآن مجید میں تقریباً “ایک ہزار “مرتبہ تکرار ہوا ہے اور خدا کے اسماء مقدسہ میں سے کوئی سا نام بھی اتنی مرتبہ قرآن میں نہیں آیا۔ یہ ایک ایسا نام ہے جو دل کو روشن کرتا ہے اور انسان کو قوت و توانائی اور سکون و آرام بخشتا ہے اور اُسے نور و صفا کے ایک عالم میں غرق کر دیتا ہے ۔
لیکن “احد “کا لفظ “وحدت “کے مادّہ سے ہی ہے اور اسی لیے بعض نے “احد “اور “واحد “کی ایک ہی معنی کے ساتھ تفسیر کی ہے ۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ دونوں ہی اس ذات کی طرف اشارہ ہیں جو ہر لحاظ سے بے مثل و بے نظیر ہے۔ علم میں یگانہ ہے ،قدرت میں بے مثل ہے ، رحمانیت اور رحیمیت میں یکتا ہے اور خلاصہ یہ ہے کہ وہ ہر لحاظ سے بے نظیر ہے ۔ لیکن بعض کا نظریہ یہ ہے کہ “احد “اور “واحد” میں فرق ہے ۔”احد “اس ذات کو کہا جاتا ہے جو کثرت کو قبول نہیں کرتا ، نہ تو خارج میں اور نہ ہی ذہن میں ۔ لہٰذا وہ شمار کرنے کے قابل نہیں ہے اور ہرگز عدد میں داخل نہیں ہوتا ،”واحد “کے بر خلاف کہ اُس کے لیے دوسرے اور تیسرے کا تصوّر ہوتا ہے ،چاہے وہ خارج میں ہو یا ذہن میں ۔اسی لیے بعض اوقات ہم یہ کہتے ہیں کہ :احدی ازاں جمعیت نیا مد ،یعنی اُن میں سے کوئی شخص بھی نہیں آیا ۔لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں کہ :واحدی نیامد (ایک نہیں آیا ) تو ممکن ہے کہ دو یا چند افراد آئے ہوں .۵؎
لیکن یہ فرق قرآن مجید اور احادیث کے مواردِ استعمال کے ساتھ چنداں سازگار نہیں ہے ۔
بعض کا یہ بھی نظریہ ہے کہ :احد (جنس و فصل اور ماہیت و وجود ) کے اجزائے ترکیبیہ خارجیہ یا عقلیہ کے مقابلہ میں خدا کی بساطتِ ذات کی طرف اشارہ ہے جب کہ واحد خارجی کثرتوں کے مقابلہ میں اس کی ذات کی یگانگت کی طرف اشارہ ہے ۔ایک حدیث میں امام محمّد باقر علیہ السّلام سے آیا ہے کہ “احد “فردِ یگانہ کو کہتے ہیں ،اور “احد “اور “واحد “کا ایک ہی مفہوم ہے ،اور وہ ایک ایسی منفرد ذات ہے جس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے ۔ اور “توحید “اس کی یگانگت ، وحدت اور انفرادیت کا اقرار ہے ۔
اِسی حدیث کے ذیل میں آیا ہے : “واحد عدد نہیں ہے ، بلکہ واحد اعداد کی بنیاد ہے ۔عدد دو سے شروع ہوتا ہے ،اس بناء پر اللہ احد “،”یعنی وہ معبود جس کی ذات کے ادراک سے انسان عاجز ہیں، اور جس کی کیفیّت کا احاطہ کر نے سے ناتواں ہیں ” کا معنی یہ ہے کہ وہ الہٰیت میں فرد ہے اور مخلوقات کی صفات سے بر تر ہے” .۶؎
قرآن مجید میں “واحد “و “احد “دونوں کا خدا کی ذاتِ پاک پر اطلاق ہوا ہے ۔یہ بات قابل ِتوجہ ہے کہ توحید صدوق میں آیا ہے کہ جنگ ِجمل میں ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر عرض کیا اے امیر المومنین ! کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ خدا واحد ہے ؟ تو واحد کا کیا معنٰی ہے ؟ اچانک لوگوں نے ہر طرف سے اس پر حملہ کر دیا اور کہنے لگے : “اے اعرابی یہ کیا سوال ہے ؟ کیا تُو دیکھ نہیں رہا ہے کہ امیر المومنین علیہ السّلام مسئلہ جنگ کی فکر میں کتنے مشغول ہیں ؟ہر سخن جائے و ہر نکتہ مقامی دارد ! ہر بات کا ایک موقع اور ہر نکتہ کا ایک مقام ہوتا ہے ۔
امیر المومنین علیہ السلام نے فر مایا :
“اسے اس کی حالت پر چھوڑ دو کیونکہ جو کچھ وہ چاہتا ہے وہی چیز ہم اس دشمن گروہ سے چاہتے ہیں ۔(وہ توحید کے بارے میں پوچھ رہا ہے ،ہم بھی مخالفین کو کلمۂ ِتوحید ہی کی دعوت دے ر ہے ہیں)”۔ اس کے بعد آپؑ نے فرمایا: “اے اعرابی یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خدا “واحد” ہے تو اس کے چار معانی ہو سکتے ہیں جن میں سے دو معانی خدا کے لیے صحیح نہیں ہیں اور اس کے دو معانی صحیح ہیں “۔”اَب وہ دو جو صحیح نہیں ہیں ،ان میں سے ایک وحدت عددی ہے ۔یہ خدا کے لیے جائز نہیں ہے (یعنی ہم یہ کہیں کہ وہ ایک ہے دو نہیں ہیں ) کیونکہ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ اس کے لیے دوسرے کا تصوّر ہو سکتا ہے لیکن وہ موجود نہیں ہے۔ حالانکہ مسلّمہ طور پر حق تعالیٰ کی غیر متناہی ذات کے لیے دوسرے کا تصوّر ہو ہی نہیں سکتا ۔کیونکہ جس چیز کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے وہ باب اعداد میں داخل نہیں ہوتی ۔کیا تُو دیکھتا نہیں کہ خدا نے ان لوگو ں کی، جنہوں نے یہ کہا تھا کہ :”ان اللہ ثالث ثلاثة”۔ (خدا تین میں کا تیسرا ہے)، تکفیر کی ہے ۔”واحد کا دوسرا معنی جو خدا کے لیے صحیح نہیں ہے یہ ہے کہ وہ واحد نوعی کے معنی میں ہو ، مثلاً ، ہم یہ کہیں کہ فلاں آدمی لوگوں میں سے ایک ہے ، یہ بھی خدا کے لیے صحیح نہیں ہے ۔(کیونکہ خدا کی کوئی جنس اور نوع نہیں ہے ) اس بات کا مفہوم تشبیہ ہے ، اور خدا ہر قسم کی تشبیہ اور نظیر سے برتر و بالا تر ہے۔ “اب رہے وہ دو مفہوم جو خدا کے بارے میں صحیح اور صادق ہیں، ان میں سے پہلا یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ خدا واحد ہے یعنی اشیاء عالم میں کوئی اس کی شبیہہ نہیں ہے ،ہاں! ہمارا پروردگار ایسا ہی ہے ۔
“دوسرے یہ کہ یہ کہا جائے کہ ہمارا پروردگار احدی المعنی ہے ،یعنی اس کی ذات نا قابل ِ تقسیم ہے ،نہ تو خارج میں، نہ تو عقل میں اور نہ ہی وہم میں ،ہاں! خدائے بزرگ ایسا ہی ہے .۷ ؎ “خلاصہ یہ ہے کہ خدا واحد و احد ہے اور یگانہ و یکتا ہے ۔واحد عددی یا نوعی و جنسی کے معنی میں نہیں، بلکہ وحدتِ ذاتی کے معنی میں ، زیادہ واضح عبارت میں اس کی وحدانیت کا معنی یہ ہے اس کا کوئی مثل و نظیر اور مانند و شبیہہ نہیں ہے “۔ اِس بات کی دلیل بھی واضح و روشن ہے :وہ ایک ایسی ذات ہے جو ہر جہت سے غیر متناہی ہے اور مسلّمہ طور پر ہر جہت سے دو غیر متناہی ذاتیں ناقابل ِتصوّر ہیں ، کیونکہ اگر دو ذاتیں ہوں گی تو وہ دونوں محدُود ہو جائیں گی، اِس میں اُس کے کمالات نہ ہوں گے اور نہ اُس میں اِس کے کمالات (غور کیجئے )۔ بعد والی آیت میں اس یکتا ذاتِ مقدس کے بارے میں فرماتا ہے :”وُہ ایسا خدا ہے کہ تمام حاجت مند اسی کی طرف رُخ کرتے ہیں “(اللہ الصمد )۔
“صمد” کے لیے روایات اور مفسّرین و اربابِ لُغت کے کلمات میں بہت زیادہ معانی بیان ہوئے ہیں ۔”راغب “،”مفردات “میں کہتا ہے :صمد اس آقا اور بزرگ کے معنی میں ہے جس کی طرف کاموں کی انجام دہی کے لیے جاتے ہیں ۔اور بعض نے یہ کہا ہے کہ “صمد ” اس چیز کے معنی میں ہے جو اندر سے خالی نہ ہو بلکہ پُر ہو ۔”مقا ییس اللغۃ”میں آیا ہے کی دو اصلی جڑ بنیادیں ہیں :ایک قصد کے معنی میں ہے اور دوسرا صلابت و استحکام کے معنی میں ،اور یہ جو خدا کو “صمد “کہا جاتا ہے تو یہ اس بناء پر ہے کہ بندے اس کی بار گاہ کا قصد و ارادہ کرتے ہیں ۔
اور شاید یہی وجہ ہے کہ ذیل کے متعدد معانی بھی لُغت کی کتابوں میں “صمد “کے لیے ذکر ہوئے ہیں: ایسی بزرگ ہستی جو انتہا ئی عظمت میں ہو، اور ایسی ذات جس کی طرف لوگ اپنی حاجات لے کر جاتے ہیں، ایسی ذات جس سے برتر کوئی چیز نہیں ہے ،ایسی ہستی جو مخلوق کے فنا و نابود ہونے کے بعد بھی دائم اور باقی رہنے والی ہے ۔ اِسی لیے امام حسین بن علی علیہ السّلام نے ایک حدیث میں “صمد”کے لیے پانچ معانی بیان کیے ہیں۔ “صمد”اس ہستی کو کہتے ہیں جو انتہائی سیادت و آقائی میں ہو ۔
“صمد” وہ ذات ہے جو دائم اور ازلی و ابدی ہو۔
“صمد”وہ موجود ہے جو جوف ( اندر سے خلا ) نہ رکھتا ہو ۔
“صمد”وہ ہستی جو نہ کھاتی ہو نہ پیتی ہو ۔
“صمد”وہ ہستی جو کبھی نہ سوتی ہو .۸؎
اور دوسری عبارتوں میں آیا ہے کہ :”صمد اس ہستی کو کہتے ہیں جو قائم بہ نفس ہوا ور غیر سے بے نیاز ہو “۔
“صمد” اس ہستی کو کہتے ہیں جس میں تغیرات اور کوئی فساد نہیں ہے ۔امام علی بن الحسین علیہ السّلام سے نقل ہوا ہے کہ آپؑ نے فرمایا :”صمد” اس ہستی کو کہتے ہیں جس کا کوئی شریک نہ ہو کسی چیز کی حفاظت کرنا اس کے لیے مشکل نہ ہو اور کوئی چیز اس سے مخفی نہیں رہتی .۹؎ ۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ “صمد” اس ذات کو کہتے ہیں کہ وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرے تو اُسے کہتا ہے ہو جا ،تو وہ فوراً ہو جاتی ہے ۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ “اہلِ بصرہ “نے امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط لکھا اور “صمد” کے معنی دریافت کیے ۔ امام علیہ السلام نے ا ن کے جواب میں فرمایا :”بسم اللہ الرحمان الرحیم ، اما بعد قرآن میں آگاہی کے بغیر بحث و گفتگو نہ کرو ، کیونکہ میں نے اپنے نانا رسول اللہ (ص) سے سُنا ہے ، آپ فرما رہے تھے : جو شخص علم کے بغیر بات کرے گا اسے آگ میں اس مقام پر رہنا پڑے گا جو اُس کے لیے معین ہے ۔ خدا نے خود “صمد” کی تفسیر بیان فرمائی ہے “لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوًا احد “۔ نہ اُسے کسی نے جنا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ،اور نہ ہی کوئی اس کی مانند اور مثل و نظیر ہے۔ ہاں ! خداوند ِ”صمد” وہ ہے جو کسی چیز سے وجود میں نہیں آیا ، اور نہ ہی وُہ کسی چیز کے اندر موجود ہے۔ نہ کسی چیز کے اُوپر قرار پایا ہے ،وہ تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا اور ان کا خالق ہے ،تمام چیزوں کو وہی اپنی قدرت سے وجود میں لایا ہے ۔جن چیزوں کو اس نے فنا کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ اس کے ارادہ سے متلاشی ہو جائے گی ،اور جسے بقاء کے لیے پیدا کیا ہے، وہ اس کے علم سے باقی رہے گی ۔یہ ہے خداوند صمد۔۔۔۔۔” .۱۰؎
اور بالآخر ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ “محمّد بن حنفیہ” نے امیر المومنین علی علیہ السّلام سے “صمد” کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا :
“صمد” کی تاویل یہ ہے کہ وہ نہ اسم ہے اور نہ جسم ہے ،نہ اس کا کوئی مثل ہے نہ کوئی نظیر ہے ،نہ صُورت ہے ، نہ تمثال ہے ،نہ حد ہے ،نہ حدُود ہے ،نہ محل ہے ، نہ مکان ہے، نہ حال ہے ،نہ یہ ہے ،نہ یہاں ہے ،نہ وہاں ہے ،نہ پُر ہے ،نہ خالی ہے ،نہ کھڑا ہے ،نہ بیٹھا ہے ،نہ ساکن ہے ،نہ متحرک ہے ،نہ ظلماتی ہے ،نہ نو رانی ہے ،نہ نفسانی ،اس کے باوجود کوئی جگہ اس سے خالی نہیں ہے اور کسی مکان میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔نہ وہ رنگ رکھتا ہے ،نہ انسان کے دل میں سماتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بُو ہے ۔یہ سب چیزیں اس کی ذات پاک سے منتقی ہے ” .۱۱؎
یہ حدیث اچھی طرح سے نشان دہی کرتی ہے کہ “صمد” کا ایک بہت ہی جامع اور وسیع مفہوم ہے ۔جو اس کی ساختِ قدس سے مخلوقات کی ہر قسم کی صفات کی نفی کرتا ہے ، کیونکہ مشخص اور محدُود اسماء اور اسی طرح جسم و رنگ و بُو و مکان و سکون و حرکت و کیفیّت و حد و حدود اور اسی قسم کی دوسری چیزیں، یہ سب ممکنات و مخلوقات کی صفات ہیں ،بلکہ زیادہ تر عالمِ مادّہ کے اوصاف ہیں، اور ہم جانتے ہیں کہ خدا ان سب سے برتر اور بالاتر ہے ۔ آخری انکشافات سے معلوم ہوا ہے کہ جہانِ مادّہ کی تمام چیزیں بہت ہی چھوٹے چھوٹے ذرّات سے مل کر بنی ہے جنہیں “ایٹم “کہا جاتا ہے ۔اور “ایٹم “خود بھی دو عمدہ حصّوں کا مرکب ہے ۔مرکزی ذرہ اور وہ الکڑون جو اس کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ اور تعجّب کی بات یہ ہے کہ اس ذرّہ اور الکڑونوں کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے ۔(البتہ یہ زیادہ ایٹم کے حجم کے اندازہ سے ہے ) اس طرح سے کہ ا گر یہ فاصلہ اُٹھا دیا جائے تو اجسام اس قدر چھوٹے ہو جائیں گے کہ وہ ہمارے لیے حیرت میں ڈالنے والے ہوں گے ۔
مثلاً اگر ایک انسان کے وجود کے ایٹمی ذرّات کے فاصلے ختم کر دیں اور اُسے مکمل طور پر دبا دیں تو ممکن ہے کہ وُہ ایک ذرّہ کی صُورت اختیار کر لے ،جس کا آنکھ کے ساتھ دیکھنا مشکل ہو جائے ۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایک انسان کے بدن کے سارے وزن کے برا بر ہو گا ،(مثلاً :یہی معمولی ذرّہ ۶۰کلو وزنی ہو گا)۔
بعض نے اس علمی انکشاف سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس بات کی طرف توجہ دیتے ہوئے کہ “صمد” کا ایک معنی ایسا وجود ہے جو اندر سے خالی نہیں ہے ، یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قرآن اس تعبیر سے یہ چاہتا ہے کہ خدا سے ہر قسم کی جسمانیت کی نفی کر دے ،کیونکہ تمام اجسام ایٹم سے بنے ہوئے ہیں اور ایٹم اندر سے خالی ہوتے ہیں ۔اور اس طرح یہ آیت قرآن کے علمی معجزات میں سے ایک ہو سکتی ہے ۔
لیکن اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اہلِ لغت میں “صمد”ایک ایسی عظیم ہستی کے معنی میں ہے جس کی طرف تمام حاجت مند رُخ کرتے ہیں اور وُہ ہر لحاظ سے کامل ہو ،اور ظاہراً باقی تمام معانی اور تفاسیر جو اس کے لیے بیان کی گئی ہیں اِسی اصل کی طرف لوٹتی ہیں۔اس کے بعد اگلی آیت میں نصاریٰ، یہود اور مشرکینِ عرب کے عقائد کی رد پیش کر تے ہوئے ۔۔۔۔جو خدا کے لیے بیٹے یا باپ کے لیے قائل تھے ۔فرماتا ہے : “اس نے نہ تو کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وُہ خُود کسی سے پیدا ہوا ہے “۔(لم یلد ولم یو لد )۔
اس بیان کے مقابلہ میں ان لوگوں کا نظریہ ہے جو تثلیث (تین خداؤں) کا عقیدہ رکھتے تھے ، باپ خدا ،بیٹا خدا ،اور رُوح القدس ۔ نصاریٰ “مسیح” کو خدا کا بیٹا کہتے تھے اور یہود “عزیر” کو اس کا بیٹا سمجھتے تھے، و قالت الیھود عزیر ابن اللہ و قالت النصارٰی المسیح ابن اللہ ذالک قولھم با فواھھم یضاھئون قول الّذین کفرو امن قبل قا تلھم اللہ انّٰی یوٴ فکون :
“یہود نے تو یہ کہا کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح خدا کا بیٹا ہے ۔یہ ایک ایسی بات ہے جو وہ اپنی زبان سے کہتے ہیں اور ان کی یہ بات گز شتہ کافروں کے قول کے مانند ہے ان پر خدا کی لعنت ہو ، وہ حق سے کیسے منحرف ہو جاتے ہیں”،(توبہ ۔۳۰)
مشرکینِ عرب کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ ملائکہ خدا کی بیٹیاں ہیں ،و خر قوالہ بنین و بنات بغیر علم :” انہوں نے جھو ٹ اور جہالت کی بناء پر خدا کے لیے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لی تھیں “(انعام ۔۱۰۰)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آیہ “لم یلد و لم یولد ” میں تولد ایک وسیع معنی رکھتا ہے اور اُس سے ہر قسم کی مادّی و لطیف چیزوں کے خروج اس ذات ِ مقّدس کے دوسری مادّی و لطیف چیزوں سے خروج کی نفی کرتا ہے ۔
جیسا کہ اسی خط میں ۔ جو امام حسینؑ نے “اہل ِ بصرہ ” کے جواب میں صمد کی تفسیر میں لکھا تھا۔ “لم یلد ولم یو لد” کے جملہ کی اس طرح تفسیر کی گئی تھی:(لم یلد ) یعنی کوئی چیز اس سے خارج نہیں ہوئی ،نہ تو بیٹے جیسی کوئی مادّی چیز اور نہ ہی وہ تمام چیزیں جو مخلوق سے خارج ہوئی ہیں (جیسے ماں کی چھاتیوں سے دُودھ ) اور نہ ہی نفس جیسی کوئی لطیف چیز ،اور نہ ہی قسم قسم کے حالات ،جیسے خواب و خیال، حزن و اندوہ ،خوشحال ہونا ، ہنسنا اور رونا، خوف و رجاء ،شوق و ملالت ، بھُوک اور سیری وغیرہ ۔خدا اس سے برتر و بالاتر ہے کہ کوئی چیز اس سے خارج ہو ۔اور وہ اس بات سے بھی برتر و بالاتر ہے کہ وُہ کسی مادّی چیز سے متولد ہو ۔۔۔۔جیسا کہ کسی زندہ موجود کا کسی دوسرے زندہ موجود سے خارج ہونا اور گھاس کا زمین سے ،پانی کا چشمہ سے ، پھل کا درختوں سے اور اشیائے لطیف کا اپنے منابع سے ،جیسے نگاہ کا آنکھ سے ،سماعت کا کان سے ،سونگھنے کا ناک سے ،چکھنے کا منہ سے ،گفتگو کا زبان سے معرفت و شناخت کا دل سے اور آگ کی چنگاری کا پتھر سے نکلنا .۱۲؎
اس حدیث کے مطابق تولد ایک وسیع معنی رکھتا ہے جو ہر قسم کے خروج اور ایک چیز کے کسی دوسری چیز کا نتیجہ ہونے کو شامل ہے ،اور یہ حقیقت میں آیت کا دوسرا معنی ہے اور اس کا پہلا اور ظاہری معنی وہی تھا جو ابتداء میں بیان کیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ دوسرا معنی پہلے معنی کی تحلیل کرنے سے پُورے طور پر قابل ِادراک ہے کیونکہ اگر خدا کے بیٹا نہیں ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مادّی عوارض سے پاک و منزّہ ہے ۔یہی معنی تمام مادّی عوارض میں بھی صادق آتا ہے ۔(غور کیجیے )
اور آخر میں اس سُورہ کی آخری آیت میں خدا کے اوصاف کے بارے میں مطلب کو مرحلۂ کمال تک پہنچاتے ہوئے فرماتا ہے : اور ہر گز اس کا کوئی شبیہ اور ہمسر نہیں ہے ۔(ولم یکن لہ کفوًا احد).۱۳؎
“کفو”اصل میں مقام و منزلت اور قدر میں ہم پلہ کے معنی میں ہے اور اس کے بعد اس کا ہر قسم کے شبیہ اور مانند پر اطلاق ہوا ہے ۔ اس آیت کے مطابق مخلوقات کے تمام عوارض اور موجودات کی صفات اور ہر قسم کا نقص و محدودیت اس کی ذاتِ پاک سے منتفی ہے ۔ یہ وہی توحید ِ ذاتی و صفاتی ہے جو اُس توحیدِ عددی و نوعی کے مقابلہ میں ہے جس کی طرف اس سورہ کے آغاز میں اشارہ ہوا ہے ۔ اس بناء پر نہ تو ذات میں اس کا کوئی شبیہ ہے اور نہ صفات میں کوئی اس کے مانند ہے ، اور نہ ہی افعال میں کوئی اس کا مثل و نظیر ہے ، وہ ہر لحاظ سے بے مثل و بے نظیر ہے ۔ امیر المومنین علی علیہ السّلام نہج البلاغہ کے خطبہ میں فرماتے ہیں : “لم یلد ” فیکون مولودًا ” ،”ولم یولد” فصیر محدودًا۔۔۔۔
ولا “کفٴ” لہ فیاکافئہ” ولا نظیر لہ فیساویہ ۔
“اس نے کسی کو نہیں جنا کہ وہ خُود بھی مولود ہو۔ اور وُہ کسی سے پیدا نہیں ہوا ورنہ وُہ محدُود ہو جاتا۔۔۔۔ اس کا کوئی مثل و نظیر نہیں ہے کہ وُہ اس کا ہم پلہ ہو جائے ، اور اس کے لیے کسی شبیہ کا تصوّر نہیں ہو سکتا کہ وہ اس کے مساوی ہو جائے” .۱۴؎ ۔اور یہ ایک ایسی عمدہ تفسیر ہے جو توحید کے عالی ترین دقائق کو بیان کرتی ہے ۔ (سلام اللّٰہ علیک یا امیر المومنین)۔

📚حوالہ جات:📚
۱؎ “بحار الانوار”جلد ۳، ص۲۲۲۔
۲؎ “بحار الانوار “جلد ۳، ص۲۲۲۔
۳؎ “بحار الانوار “جلد ۳، ص۲۲۲۔
۴؎ “بحار الانوار “جلد ۳، ص۲۲۲۔
۵؎ “المیزان “جلد ۲۰، ص۵۴۳۔
۶؎ “بحار الانوار “جلد ۳، ص۲۲۲۔
۷؎ “بحار الانوار “جلد ۳،ص۳۰۶،حدیث۱۔
۸؎ “بحار الانوار “جلد ۳، ص ۲۲۳۔
۹؎ “بحار الانوار “جلد ۳، ص ۲۲۳۔
۱۰؎ “مجمع البیان”جلد ۱۰ ،ص۵۶۵۔
۱۱؎ “بحار الانوار “جلد ۳، ص۲۳۰ ،حدیث۲۱۔
۱۲؎ “بحار الانوار “جلد ۳ ص ۲۲۴۔
۱۳؎ “احد”، “کان”کا اسم ہے اور “کفوًا ” اس کی خبر ہے ۔
۱۴؎ “نہج البلاغہ”خطبہ ۱۸۶۔

اپنا تبصرہ بھیجیں