🌹 “ظالم” بیویاں 🌹

الجھتی ہیں، ناراض ہوتی ہیں، بگڑتی ہیں اور پھر آپ کے ہی قدموں میں بکھر جاتی ہیں اور سب کچھ آپ کے پاؤں میں ہار دیتی ہیں۔
روپیہ روپیہ جوڑتی ہیں، کبھی آپ کی جیب سے بچا بچا کے اور کبھی اپنی وراثت میں ملا روپیہ- ایسی بھولی گائیں ہوتی ہیں یہ کہ خاوند پر احسان چڑھاتی ہیں لیکن کرتی ہمیشہ “گھاٹے کا سودا” ہیں۔ وہ یوں کہ سینت سینت کر جوڑا روپیہ آپ کی اولاد پر لگا چھوڑتی ہیں۔ کبھی بہت ہوا تو اپنے دو چار جوڑے بنا لیے لیکن اکثر جانتے ہیں کیا کرتی ہیں؟
جی ہاں بہت شوق سے بازار جا کر گھر کی کوئی شے، کوئی آرائش کی یا استعمال کی چیز لے آتی ہیں۔ بہت سیانی بنتی ہیں، ایک جملے کو، صرف ایک تحسین کے جملے کو اس “جوڑ توڑ” کا حاصل سمجھتی ہیں۔ آپ کے حصے کا کام کر رہی ہوتی ہیں اور بدلے میں صرف اک نظر، محبت بھری مسکراہٹ اور تسلیم پر راضی ہو جاتی ہیں۔

دیکھئے نا اصول کی بات ہے کہ گھر بنانا اور چلانا مرد کی ذمے داری ہے اور اس کو سنبھالنا، سجانا، سنوارنا عورت کی۔
اب یہ عورت مرد کے حصے کا کام کرتی ہے اور تحسین کے دو بول محض دو بول مانگتی ہے اور جانتے ہیں؟ انہی پر راضی ہو جاتی ہے۔

اگلے روز ہمارے ایک فیس بک کے دوست کا آپریشن تھا- دوست کے دونوں گردے ناکارہ ہو چلے تھے- تبدیلی کا فیصلہ ہوا- ان کی پوسٹ دیکھی دل مضطرب تھا- کیسا خوبصورت، ہنستا چہرہ، سچی بات ہے مجھے بہت اندیشے تھے۔ اللہ نے زندگی دی، لوٹ آئے- ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ جس نے گردہ عطیہ کیا وہ کیسا ہے؟
اگلا سوال کسی نے کیا:
“بھائی آپ کو گردہ کس نے دیا؟”
ان کا جواب تھا:
“میری اہلیہ نے”
میری آنکھیں بھر آئیں- کہ یہ کیسی کمال کی نعمت اللہ نے ہم کو دی ہے- بھلا ایسا بھی ہوتا ہے۔

ہم سے محبت کرتی ہیں، پھر الجھتی ہیں، اور پھر اپنا سب کچھ ہم پر ہی ہار دیتی ہیں، اگر وقت آن پڑے تو اپنی جان بھی وار دیتی ہیں۔

کبھی تو ہم ایسے بے پرواہ ہو جاتے ہیں کہ تعریف تو کیا تسلیم سے بھی مکر جاتے ہیں لیکن یہ ایسی ہوتی ہیں کہ اس بے پرواہی کا علاج بھی مزید محبت سے کرتی ہیں- کہ شائد اب کے شام کا بھولا جلدی لوٹ آئے۔
اگلے روز ایک ویڈیو دیکھی کہ خاوند بیوی کی بے جا ضد سے ہارا کہ جو ساتھ جانے کو تیار نہ تھی- اس نے اسے باندھا اور ساتھ لے چلا، راستے میں لوگوں نے اس عمل پر اس مرد کو شرمندہ کیا تو اس نے اسے کھولا- اب وہ عورت لوگوں کو یقین دلا رہی تھی کہ کوئی ایسا مشکوک معاملہ نہیں وہ اس کی بیوی ہی ہے، بس لڑائی ہو گئی تھی اور ساتھ ساتھ میں اپنے خاوند کے منہ سے پسینہ کمال محبت سے صاف کر رہی تھی۔ لوگوں کے تیور دیکھے تو سب لڑائی بھول گئی بس یہی فکر کہ کوئی اس کے خاوند کو کچھ نہ کہے۔
جگ تے توں جیویں، تے تری آس تے میں جیواں

ایسی “جھلی” ہوتی ہیں کہ کھانے کا بہترین حصہ ہمارے لیے بچا کے رکھتی ہیں اور ہم بسا اوقات یہ پوچھنا بھی بھول جاتے ہے کہ اس نے کھانا بھی کھایا یا نہیں۔

ہم بھلے تمام دن دوستوں میں بتا کے آئیں ، یہی سمجھتی ہیں کہ سرتاج دن بھر کام کاج کے تھکے آئے ہیں۔ پاؤں بھی دھیرج رکھتی ہے کہ مزاج کے نازک آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ ہم ایسے بے توفیق ہوویں کہ نازک آبگینے خود بن کے رہ گئے- اور اس کے لیے یہ کہنا کہ
“آپ تمام دن کرتی کیا ہو”

مجھے اپنے ایک گاہک یاد آ گئے کہ جب بھی آتے ایک آٹھ دس برس کا بچہ ہمراہ ہوتا۔ اک روز بتانے لگے کہ اس کی ماں نہیں، کھانا بھی خود بناتا ہوں، اکٹھے رہتے ہیں ایک کمرہ لیا ہوا ہے۔ نوکری لاہور میں ہے- میں ملازمت پر چلا جاتا ہوں اس کو حفظ کے مدرسے میں چھوڑ کے آتا ہوں، تب کچھ کام کر پاتا ہوں- میں سوچ کے رہ گیا کہ ہم کیسے بے فکر ہو کے کام پر چلے آتے ہیں۔

ایسی سادہ ہوتی ہیں کہ شادی کی اگلے روز اپنا حق مہر معاف کر کے بیٹھی ہوتی ہیں اور اگر کوئی زیادہ مسکین شکل بنا لے یا محبت سے بازوؤں میں بھر لے تو وہی رقم اس کو دے کر کہتی ہیں لیں آپ برت لیجئے گا، میں نے کیا کرنی ہے، آپ ہیں نا۔

تحریر ۔۔۔ ابوبکر قدوسی

اپنا تبصرہ بھیجیں