حیا عورت کا زیور

انسان کی ابتدا ایک مرد اور عورت سے ہوئی ”یعنی حضرت آدم ؑ اور اماں حوا“ یو ں عورت روز اول سے ہے اور اس کو صنف نازک کا نام ملا۔ صنف نازک ہونے کے باوجود عورت کا ظرف سمندر سے بھی زیادہ ہے۔ عورت بڑ ی سے بڑی مشکل کا سامنا صبرو تحمل سے کرتی ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کو حقارت کی نگا ہ سے دیکھاجاتا تھا۔ عورت کا دائرہ کار صرف گھر تک محدودتھا۔ بیوی کا مقام ایک غلام سے زیادہ نہ تھا۔ عورت کی رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ الغرض عورت انسانیت کے درجے سے بھی بہت دور تھی۔ پھر اسی تاریک دور میں اسلام روشنی کی کرن بن کر آیا اور عورت کو معاشرے میں ہر لحاظ سے باعز ت مقام نصیب ہوا۔
سب سے پہلے عورت کو ماں کے روپ میں بلند ترین درجہ دیاگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو بہت زیادہ قدر دی ہے کیونکہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ ا س کے بعد بہن اور بیٹی کا مقدس رشتہ بنا کر ایک اعلیٰ مرتبہ دیا۔ بیٹی کو باعث رحمت قرار دیا۔ زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا تھا اور لڑکیوں کا گھر میں ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ اسلام میں ایک واقعہ ہے کہ ”ایک آدمی حضرت محمد کے پاس آیا اور رونے لگا تو رسول اکرم کے پوچھنے پر اس آدمی نے بتایا یا رسول اللہ! مجھ سے بہت بڑا گنا ہ ہو گیا ہے۔ آپ نے پوچھا ایسا بھی کیا ہوا؟ تو اس آدمی نے کہا میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جو معافی کے قابل نہیں۔ پھر بتایا کہ میرے گھرمیں ایک بیٹی پیدا ہوئی تو میں نے اس کو قتل نہیں کیا اور اب وہ پانچ سال کی ہوگئی۔ ایک دن باہر کھیل رہی تھی تو لوگوں نے مجھ سے کہا توکیسا بے غیر ت ہے کہ بیٹی کو رکھا ہوا ہے۔ جس سے مجھے بہت غصہ آیا اور میں اپنی بیٹی کو لیکر جنگل میں چلا گیا۔ راستے میں ننھی سی بچی نے مجھ سے پوچھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ جب میں جنگل میں پہنچ گیا تو میں نے ایک گڑھا کھودا۔ جب میں گڑھے سے مٹی نکا ل رہا تھا تو مٹی میرے کپڑوں پر گرگئی تو وہ میرے کپڑے اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے صاف کرنے لگی اور میرا پسینہ بھی صاف کرتی رہی مگر مجھے اس پر رحم نہیں آیااور میں نے بچی کو گڑھے میں ڈال دیااور مٹی ڈالناشروع کردی۔ بچی چلاتی رہی،روتی رہی مگر پھر بھی میرے دل میں رحم نہیں آیا۔ یہ سن کر آپﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا اے بدنصیب شخص تو یہاں سے چلا جا کیونکہ جو
رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔
اس جدید دور میں بڑے افسوس کی بات ہے کہ اب بھی بہت سے لوگ لڑکیوں کو باعث شرم سمجھتے ہیں۔ لڑکیوں کا ہونا احساس کمتری اور حقیر سمجھا جاتا ہے۔ کیا یہ ہے ہمارے اسلام کی تعلیم جو ہمیں اور ہماری سوچ کو بھی نہیں بدل سکتی؟ بہت سے لوگ بیٹیوں کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھتے ہیں۔
عورت کی مثال موم بتی کی سی ہے جو خود تو جلتی ہے مگر دوسروں کو روشنی دیتی ہے۔ بیوی کے روپ میں چراغ خانہ ہے جو کہ پورے گھر کو روشن رکھتی ہے مگر افسوس آج بھی بیوی کو زمانہ جاہلیت کی طرح غلام ہی کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے مرد کا درجہ بلند رکھا ہے وہیں بیوی کے حقوق بھی بنائے ہیں۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ مر د تو اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ اس کا ہر حکم مانے اور غلام کی طرح فرمانبردارہو۔ جبکہ وہ عورت جو بیوی کی صورت میں اپنا گھر، بہن بھائی اور اپنے دوست احباب سب کچھ چھوڑکر صر ف ایک انسان کی خاطر آئے اور شوہر کا ظرف اتنا بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے گھر اپنی زندگی میں اسے باعزت مقام دے سکے۔کیا اس لیے ہی اسلام نے عورت کے حقوق متعین کیے تھے۔ جن کی پاسداری تو بہت دور ہمارے معاشرے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ مسلمان ہوتے ہوئے بھی ہمارے ضمیر اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ ہماری تہذیب میں عورت کو صرف نام کے حقوق دیے جارہے ہیں۔”عورت کے حقوق“ایک عام سا جملہ ہے۔اگر کسی بھی شخص یا حکمران کو عورت کے حقوق کے بارے میں پوچھا جائے تووہ اسی جملے پر گھنٹوں تقریر کردیتے ہیں مگر عملی طور پر اس کا ثبوت نہیں ملتا۔
آج عورتیں زندگی کے ہر شعبے میں مرد کے شانہ بشانہ کام کررہی ہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق عورت کے دماغ کا وزن 44اونس ہے جبکہ مرد کا 46اونس ہے۔ جس کی وجہ سے مرد قدرتی طور پر ذہین زیادہ ہیں اس کے باوجود عورت ہرشعبہ زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرتی ہے۔ استاد بن کر قوم کی رہنمائی کرتی ہے توکبھی سائنسی تجربوں میں رہنمائی کرتی ہے۔ یوں تعلیمی میدان میں بھی آگے ہے مگر اس جدید دور میں بھی کچھ گاﺅں اور دیہات کے لوگوں میں عورت کی پڑھائی کو معیوب سمجھا جاتا ہے جبکہ ہمارے دین میں تعلیم کے بارے میں ہے کہ ”علم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر فرض ہے“ جب اسلام نے عورت کو تعلیم کا حق دیا ہے تو ہمارا معاشرہ کیوں اس کی مخالفت کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔
آخرمیں کچھ باتیں ان خواتین کے لیے جو اسلام کی دی ہوئی آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔جہاں اسلام نے عورت کو تعلیم کا حق دیا ہے توعورت کو تعلیم ضرور دلوانی چاہیے کیونکہ اگر عورت تعلیم یافتہ ہوگی تووہ اپنے گھر کواس دنیا میں جنت بنا دے گی۔ گھر میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا، بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے ہوگی۔ مگر عورت کو بھی چاہیے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔ جہاں اسلام نے عورت کو اتنے حقوق دیے ہیں وہاں پر عورت کے لیے پردہ بھی لازم قرار دیا ہے۔ تعلیم کے ساتھ انہیں اپنے پردے کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں بے حیائی بہت پھیل رہی ہے۔ اس بے حیائی میں جہاں مرد شامل ہیں اس سے زیادہ عورت کا ہاتھ ہے کیونکہ وہ بے پردہ پھرتی ہے؟تعلیم عورت کو اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ پردے کا بھی حکم دیتی ہے۔اسلام عورت کو بناﺅ سنگھار سے منع نہیں کرتا مگر وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اپنے گھر میں رہ کر سنگھار کرو اور کسی نامحر م کے سامنے بغیر
پردہ کئے نہ آﺅ مگر ہمارے معاشرے میں خواتین جیسے جیسے تعلیم حاصل کررہی ہیں ویسے ویسے پردے سے دور ہوتی جارہی ہیں۔عورت جدید دورکے نام پر اسلام سے دور نہ ہو۔ ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے اپنی بہن بیٹی کو اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے نہ کہ جدید یا ماڈرن دنیا کے نام پر اسلام کے اصولوں کو بھول کر فحاشی یا بے حیائی کو عام کریں-

ارم ظہیر

3 تبصرے “حیا عورت کا زیور

  1. I see You’re actually a excellent webmaster. This site loading pace is incredible. It kind of feels that you are doing any distinctive trick. In addition, the contents are masterwork. you have done a great job on this topic! Similar here: najlepszy sklep and also here: Sklep internetowy

اپنا تبصرہ بھیجیں