کہاں سےلاوں دوسرا ڈاکٹر اجمل ساوند

ایک ایسا شخص سندھ میں قتل ہوگیا ہے جس کے قتل پر ہر آنکھ آشکبار ہے، میں نے چودھویں کے چاند کو بھی اس قتل پر ماتم کرتے دیکھا ہے۔‏اس شخص کا نام پروفیسر اجمل ساوند ہے اور یہ سکھر آئی بی اے کا پروفیسر تھا ، فرانس سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں پی ایچ ڈی کر کے آیا تھافرانس میں اسے ایک گھنٹے کے لیکچر کے 30 ہزار روپے پاکستانی ملتے تھے لیکن وہ فرانس سے واپس آ گیا کہ میں اپنے لوگوں کو پڑھاؤں گا …لیکن آج اسکے اپنوں نے اسے خون میں نہلا دیا۔ دو قبائل کی جنگ میں سندھ کا سونا مٹی برد ہوگیا۔ ‏ڈاکٹر اجمل ساوند سکھر آئی بی اے میں پروفیسر تھے، پروفیسر صاحب آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں پی ایچ ڈی تھے، ‏بیرون ملک میں رہتے ہوئے وہ ٹھیک ٹھاک کما رہے تھے مگر پھر اچانک اپنے ملک کے لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ جاگا اور وہ پاکستان آگئے ‏وہ فرانس سے یہ امید لیکر واپس آئے تھے کہ ‏اپنے لوگوں کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس پڑھاوں گا اور انہیں دنیا کی رفتار کیساتھ چلنا سیکھاوں گا۔ ‏چند روز قبل ڈاکٹر صاحب کشمور میں ایک قبائلی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے اور دن دہاڑے قتل کر دیئے گئے۔ نقصان یقینی طور پر ڈاکٹر اجمل کے گھر والوں کا ہوا مگر حقیقی نقصان تو سندھی قوم کا ہوا جس کے پاس ایسے لوگوں کی ہمیشہ کمی رہی ہے جو معاشرے کو کچھ دینا چاہتے ہوں، یہاں کا عیدی ہو، زولفقار علی بھٹو ہو یا ڈاکٹر اجمل سب اپنوں کی سازشوں کا بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر اجمل ساوند فرانس سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس میں PHD کر کے پاکستان واپس آئے کہ میں پاکستان جا کر اپنے لوگوں کو آرٹیفشل انٹیلیجنس اور کمپیوٹر سائنس میں ماہر بناوں گا اور ان کو پڑھاؤنگا پر ان کو معلوم نہیں تھا کہ جس فرانس کی بڑی نوکری کو چھوڑ کر وہ اپنے ملک پاکستان آ رہے ہیں , وہاں ان کے اپنے بچے یتیم ہو جائینگے. پاکستان جیسے ملک میں جہاں پی ایچ ڈی لوگ ویسے ہی کم ہیں , وہاں یہ شخص کمپیوٹر کی آرٹیفشل انٹیلیجنس میں پی ایچ ڈی تھا . اور اس طرح کے صرف چند پی ایچ ڈی ڈاکٹرز پاکستان کے پاس تھے.ڈاکٹر اجمل ساوند انتہا درجے کے ذہین , اور لائق پروفیسر تھے ان کو دن دہاڑے سڑک کنارے ان کی کار کو روک کر قتل کیا گیا جب وہ اپنے گھر جا رہے تھے . قتل کرنے والوں کا بس ایک مقصد تھا کہ اس قبیلے / ذات کے کسی اور خاندان سے ان کی دشمنی تھی اور ان سے حساب لینا تھا . تو بدلے میں ڈاکٹر اجمل کا خیال آیا کہ کیوں نہ ان کے ذات کے کسی بڑے آدمی کو قتل کیا جائے اور خون کی پیاس بھجائی جائے. اور اس طرح آدم خور لوگوں نے ایک دیوتا کو ہڑپ کر لیا جو دیوتا اپنے علم اور عقل سے علم کی روشنی کا چراغ لیکر اندھیروں کو ختم کرنے نکلا تھا . پروفیسر اجمل صاحب ایک زبردست استاد , ایک اچھے انسان , ملن سار آدمی , ادب اور ثقافت سے ذوق رکھنے والے , موسیقی کے شوقین , تاریخ اور جگرافیائی کو پسند کرنے والے , اور غریبوں اور مسکینوں کے ہمدرد تھے. فرانس میں پی ایچ ڈی Phd کی پڑھائی کے دوران پاکستان کے اسٹوڈنٹس کو فرانس یا باہر کے ملکوں میں پڑھائی کے راستے بتاتے رہتے تھے، غیرت کے نام پر قتل ہونے والا ڈاکٹر اجمل بے گناہ تھا، جس کا سندرانی اور ساوند قبائل کے جھگڑے سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا مگر ڈاکٹر ساوند کو قتل کرنے والوں نے صرف ڈاکٹر ساوند کا قتل نہیں کیا بلکہ پوری سندھی قوم کا قتل کیا ہے۔ میرا سوال تو اس عدالتی نظام سے بنتا ہے جہاں سے قاتل بری ہی نہیں ہوتے بلکہ با عزت بری ہوتے ہیں پھر ساوند کا قاتل یا تو جرگے میں معافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا یا پھر عدالت سے، مگر ہم کب تک اس طرح کے قتل اپنی دھرتی پر ہوتے دیکھ کر خاموش رہیں گے ؟ ہم سندھیوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایسی روایتوں کی حوصلہ شکنی ہو جس میں سڑکیں خونی تالاب کا منظر پیش کرتی ہوں، ہم تو انسان ہیں مگر یہ وحیشت ہم پر کیوں طاری ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر اجمل کے قاتلوں کا گرفتار کر کے ایسی مثال بنائی جائے کہ پھر کوئی قبیلہ ایسی دشمنی نبھانے کی جرات نہ کرے، سندھ کے قوم پرست اگر آنے والی نسل کا مستقبل تابناک چاہتے ہیں تو پورا سندھ سندرانی قبائل کو دیہاتوں کی طرف مارچ کر کے اس قبیلے کو سندھ بدر کردے تاکہ مستقبل میں سندھ مزید کسی ڈاکٹر اجمل سے محروم نہ ہو

اپنا تبصرہ بھیجیں