ادھوری صداقتوں کا سفر

مجھے بالکل یاد نہیں کہ فاروق عادل سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی تھی مگر یہ بات میرے دل میں واضح ہو چکی ہے کہ دنیا مخلص اور دیانتدار لوگوں سے کبھی خالی نہیں ہوئی وہ جب کراچی میں تھے اس وقت بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی اور جب سابق صدرِ پاکستان جناب ممنون حسین کی نظر انتخاب ان پر پڑی تو وہ کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے اور اب وہ اسلام آبادی ہو کر رہ گئے ہیں۔ فاروق عادل ایک منجھے ہوئے صحافی اور ادیب ہیں اور ’’اس کے باوجود‘‘ نہایت اعلیٰ درجے کے انسان بھی! شرافت اور وضعداری کے پیکر اور اتنے منکسر المزاج کہ کبھی کبھار مجھ تک کو اپنے اساتذہ میں گرداننے سے بھی باز نہیں آتے، اللہ ان کے حال پر رحم کرے۔
فاروق عادل ان دنوں بی بی سی کیلئے بھی کام کرتے ہیں اور حال ہی میں یہ مضامین ’’ہم نے جو بھلا دیا‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوئے ہیں اور یہ کتاب قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے زیراہتمام شائع ہوئی ہے۔ مجھے تو یہ کتاب ہر حال میں پڑھنا تھی کہ اس کے مصنف فاروق عادل تھے لیکن کتاب پڑھنے کےبعد اندازہ ہوا کہ میں اگریہ کتاب نہ پڑھتا تو اپنے آپ پر ظلم کرتا۔یہ کوئی عام کتاب نہیں بلکہ جن لوگوں نے پاکستان کی زندگی میں آنے والے بہت سے واقعات بلکہ کتابیں بھی پڑھی ہیں وہ بھی شاید اس کتاب کے مطالعہ کے دوران کئی مقامات پر ٹھٹک کر رہ جاتے، میری عمر پاکستان کی عمر سے پانچ سال زیادہ ہے چنانچہ میں اس کتاب کے بہت سے موضوعات، حالات وواقعات سے کچھ حد تک آگاہ ہوں مگر میرا مشاہدہ اور مطالعہ صرف کانوں سے سنے ہوئے واقعات، آنکھوں سے دیکھے ہوئے دھندلے دھندلے سے مناظر اور اخبارات کی ادھوری سچائیوں تک محدودتھا۔ مگر جب فاروق عادل کی تحقیق کے اصولوں کے مطابق لکھی گئی کتاب پڑھی تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ہمیں کیا کیا فتح و کامرانی کی کہانیاں سنائی گئیں اور اندر سے کتنی پامال حقیقتیں برآمد ہوئیں۔ پاکستان میں 1951ء میں جب غذائی قلت پیدا ہوئی تو امریکہ سے غلے کی صورت میں ہمیں امداد مہیا کی گئی اور ان امدادی بوریوں پر ’’شکریہ امریکہ‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ یہ عبارت میں نے بھی پڑھی تھی۔ اس کے بعد بھی مختلف مقامات پر امریکہ ہی ہماری مدد کو آتا رہا، مگر یہیں سے ان معاہدوں کا آغاز ہوا جن کے نتیجے میں ہم نے ایسے معاہدوں پر دستخط کئے جن کے نتیجے میں ہماری خود مختاری پرسوال اٹھنا شروع ہوئے اور ہم آج بھی امداد حاصل کرنے والے ملکوں سے بہت نیاز مندی کے ساتھ ملنے پر مجبور ہیں۔
یوں تو ساری کی ساری کتاب
عبرت سرائے دہر ہےاور ہم ہیں دوستو!
کی آئینہ دار ہے مگر ہمارے اس دور کے عسکری بزرجمہروں نے کشمیر کی آزادی کے جو منصوبے بنائے اور اس حوالے سے شیخ چلی جیسے خواب دیکھے اور ان کا جو بھیانک نتیجہ سامنا ہے، اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا تھا مگر اس کے کئی برسوں بعد پھر کارگل کا ایڈونچر سامنے آگیا۔ فاروق عادل نے یہ سب دلخراش تاریخ ،منصوبہ سازوں، سیاست دانوں ان کے مشیروں اور اس دور میں اس حوالے سے سامنے آنے والی کتابوں اور تحریروں کی مدد سے قارئین تک پہنچائی ہے۔ میں یہ کتاب پڑھتا گیا اور اداس ہوتا چلا گیا، تاہم میری خواہش ہے کہ ہم اگر اپنی بے خواب راتوں کو روشن صبحوں میں بدلنا چاہتے ہیں تو ان اور ان جیسے متعدد حقائق کو قوم کےسامنے لانا ضروری ہے۔
میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ہم نے اگر اپنی قوم کو بیدار کرناہے اور انہیں باشعور بنانا ہے تو ہمیں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پڑھائے جانے والے جھوٹ کے پلندوں کو نذر آتش کرنا ہوگا اور آنے والی نسل کو تلخ سے تلخ تاریخی حقائق سے آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو آپ یقین جانیں ہم اپنا مستقبل محفوظ اور روشن بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فاروق عادل نے یہ کتاب لکھ کر اور پبلشر نے شائع کرکے ایک قومی خدمت سرانجام دی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس موضوع پر (اگرچہ اور بھی کتابیں شائع ہو چکی ہیں) دوسرے تاریخ دان بھی وہ حقائق سامنے لائیں جو ادھوری صداقتوں کی صورت میں ہمارے سامنے آتے رہے ہیں۔ قوم کو اب مکمل صداقت جاننے کی ضرورت ہے۔

ادھوری صداقتوں کا سفر” ایک تبصرہ

  1. You are really a excellent webmaster. This website loading pace is amazing. It sort of feels that you are doing any unique trick. In addition, the contents are masterpiece. you’ve done a wonderful activity in this matter! Similar here: bezpieczne zakupy and also here: Sklep online

اپنا تبصرہ بھیجیں