اسلم کرہانی اور ادب کا امتزاج

رنگ، خوشبو،صبا، چاند،تارے، کرن، پھول، شبنم، شفق، آبجو، چاندنی
ان کی دلکش جوانی کی تکمیل میں حسنِ فطرت کی ہر چیز کام آگئی

طویل بحر کا یہ شعر لڑکپن میں کہیں پڑھا تھا، اب تک یاد ہے. حالانکہ مجھے زیادہ شعر یاد نہیں رہتے.
اس کے شاعر ہیں شمیم کرہانی، جن کی آج 48 ویں برسی ہے.
شمیمؔ کرہانی کا پورا نام سید شمس الدین حیدر تھا۔ یو پی کے مؤ ضلع کے کَرہان گاؤں میں پیدا ہونے کی وجہ سے کرہانی لکھتے تھے۔ اپنے قلمی نام سے اس قدر مشہور تھے کہ ایک انٹرویو کے دوران خود بھی اپنا اصل نام یکلخت یاد نہیں کرسکے تھے۔ 8؍جون 1913ء کو پیدا ہوئے اور19 مارچ 1975 کو وفات پائی۔
آٹھ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ بعد میں آرزوؔ لکھنوی کےشاگرد ہوئے اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی اختیار کی ۔
1942 ء کی انگریزوں کے خلاف بھارت چھوڑو تحریک کے دوران وہ روزانہ ایک باغیانہ نظم لکھ لیتے تھے، ان کی متعدد نظمیں اور نغمے آزادی کی تحریک میں لکھنؤ اور بنارس جیسے شہروں میں ’پربھات پھیریوں‘ میں گائے جانے لگے۔۔یہ نظمیں ’روشن اندھیرا‘ نام کے شعری مجوعہ میں شائع ہوئیں۔
1948ء میں گاندھی کے قتل پر نظم لکھی’جگاؤ نہ باپو کو نیند آگئی ہے‘ نہرو نے یہ نظم سنی تو بہت متاثر ہوئے۔ بعد میں وزیراعظم ہاؤس میں دعوت دی اور والہانہ استقبال کیا۔اور جنگ آزادی کی تاریخ کے پس منظر میں اردو میں نظمیں لکھنے کی فرمائش کی اورکوئی مناسب آمدنی کا ذریعہ ہونے تک اپنی جیب سے وظیفہ دینے کا اظہار بھی کیا۔7 ؍فروری1950ء کو انہوں نے شمیمؔ کرہانی کی ڈائری میں لکھا
A poet should make his life itself a poem.Shamim Karhani has sung of India`s freedom.I hope he will continue to do so and enjoy this freedom.
شمیمؔ کرہانی نے دہلی میں پہلے دیانند اینگلو ویدک اسکول میں کام کیا اور پھر روزنامہ قومی آواز سے وابستہ ہوئے لیکن آخر اینگلو عربک اسکول اجمیری گیٹ دہلی میں فارسی کے استاد مقرر ہوگئے۔
کہتے ہیں جب مشاعرے کا کوئی دعوت نامہ آتا تو بہت غور سے پڑھتے تھے ، زبان کی غلطیوں پر جھنجھلا اٹھتے تھے اور فرماتے تھے ’ خط ٹھیک سے لکھنا تو آتا نہیں ہے اور مشاعروں میں بلا لیتے ہیں‘۔
ایک بار اسکول میں سینئر استاد کی حیثیت سے سیلیکشن گریڈ ان کو ملنا تھا لیکن کافی جونیئر استاد کو مل گیا۔ ساتھیوں کے مشورے پر اس فیصلے کے خلاف درخواست دے دی،لیکن پھر خود ہی جاکر اس درخواست کو پھاڑ بھی دیا اور مذکورہ استاد کے پاس گئے اور نم آنکھوں سے فرمایا ’بھائی یہ گریڈ تم ہی لو، میں تو مشاعروں وغیرہ سے بھی کما لیتا ہوں، وہی میرے لئے کافی ہے۔‘
شمیمؔ کرہانی مجموعے
’برق وباراں‘(1939)، ’روشن اندھیرے‘(1942)، ’ترانے‘(1944)، ’بڑھ چل رے ہندوستان‘ (1948) ،’تعمیر‘(1948)، ’ عکسِ گل‘ (1962)،’انتخاب کلام شمیمؔ کرہانی‘(1963)، ’ذوالفقار‘(1964)،’ حریفِ نیم شب‘ (1972)،’جانِ برادر‘(1973)،’صبحِ فاران‘(1974) عکس گل کا ہندی ترجمہ ’پشپ چھایا‘ کے نام سے شائع ہوا.

شمیمؔ کرہانی کی نظموں کے کچھ اشعار
’ملاقات‘
آ ؤ کچھ دیر دل کی کہانی کہہ لیں پھر خدا جانے ملاقات کبھی ہو کہ نہ ہو
مل گئے ہم یہ زمانے میں نئی بات ہوئی پھر زمانے میں نئی بات کبھی ہو کہ نہ ہو
’آہٹ‘
تھک کر گر پڑتی ہے اندھیرے میں نگاہ شوق آنکھوں سے ٹپک پڑتا ہے آنسو بن کر
چاند نظروں سے کہیں دور چلا جاتا ہے چاندنی ذہن میں رہ جاتی ہے جگنو بن کر

انہی تنہائی کی راہوں سے گزرنا ہے مجھے ساتھ میرے غمِ دوراں کا اندھیرا ہوگا
غمِ دوراں کا اندھیرا ہی پتہ دیتا ہے اک نہ اک دن میری منزل کا سویرا ہوگا

شمیمؔ کرہانی کی غزلوں کے چند اشعار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب تک نہ خوگرِ مہر و وفا تھے ہم کچھہ لذتِ حیات سے نا آشنا تھے ہم
یارانِ سست گام سے مجبور ہوگئے ورنہ ہوائے شوق سے پوچھو کہ کیا تھے ہم

عشق کا نغمہ ‘ عشق کی دھن اور کوئی آواز نہ سن
ساری گرہیں کھل تو گئیں لیکن ٹوٹ گئے ناخن

جام چلنے لگے ، دل مچلنے لگے،انجمن جھوم اٹھی ،بزم لہرا گئی
بعد مدت محفل میں جو تم آگئے جیسے بے جان قالب میں جاں آگئی

نئی سحر کی تمنا نہیں تو کچھہ بھی نہیں تری حیات میں فردا نہیں تو کچھہ بھی نہیں
سخن میں عالم معنی سہی شمیمؔ مگر حیات نو کا تقاضا نہیں تو کچھ بھی نہیں

جو ہم سفر سرِ منزل نظر نہیں آتے جنونِ شوق میں آگے نکل گئے ہوں گے
جوئے خوں کوہکنوں نے جو بہائی بھی تو کیا اور رنگیں ہوا شیشۂ خواب پرویز

ماہ و انجم ،کہیں رستے میں نہ رہ جائیں شمیمؔ
کچھہ مری خاک کے ذرات کی پرواز ہے تیز

یاد ماضی، غمِ امروز، امیدِ فردا
کتنے سائے مرے ہمراہ چلا کرتے ہیں

وادئ دل ہے ،قدم سوچ کے رکھنا کہ شمیمؔ
تیر اس راہ میں ناگاہ چلا کرتے ہیں

کشتیاں نہیں تو کیا حوصلے تو پاس ہیں
کہہ دو ناخداؤں سے تم کوئی خدا نہیں

بے خبر پھول کو بھی کھینچ کے پتھر پہ نہ مار
کہ دل سنگ میں خوابیدہ صنم ہوتا ہے

بجھا ہے دل تو نہ سمجھو کہ بجھ گیا غم بھی
کہ اب چراغ کے بدلے چراغ کی لو ہے

چپ ہوں تمہارا درد محبت لیے ہوئے
سب پوچھتے ہیں تم نے زمانے سے کیا لیا

لیجئے بلا لیا آپ کو خیال میں
اب تو دیکھیے ہمیں کوئی دیکھتا نہیں

پینے کو اس جہان میں کون سی مے نہیں مگر
عشق جو بانٹتا ہے وہ آب حیات اور ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں